وزیراعظم میاں محمد میاں نواز شریف نے بذات خود مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ یہ مذاکرات وفاقی حکومت کی نگرانی میں ہو رہے ہیں۔ حکومت ڈرون حملوں کے حوالے سے مناسب احتجاج ریکارڈ پر لا چکی ہے۔ اس صورتحال میں مذاکرات اور ڈرون حملوں کو خلط ملط کر کے بیان بازی کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ جو بات پوری قوم گزشتہ کئی ماہ سے سننے کے لئے بے تاب تھی وہ وزیراعظم پاکستان نے بالآخر لندن میں برطانوی نائب وزیر اعظم کے کان میں جا کر بتائی ہے۔
لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اعلامیہ کے مطابق نک کلیگ سے ایک ملاقات میں نواز شریف نے بتایا کہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئندہ خبر ہے لیکن لندن کے ایک گوشے سے اس کی اطلاع بالواسطہ طور پر دے کر وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت نے خود اپنے آپ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ اس کے برعکس طالبان جیسی سخت گیر اور ظالم تحریک کے سرکردہ لوگوں سے بات چیت کرنے کے لئے پاکستانی لیڈروں کو حوصلہ اور جراتمندی کی ضرورت ہے۔ یہ بات ناقابل فہم رہے گی کہ میاں نواز شریف کو یہ اہم خبر قوم کو بتانے کے لئے برطانوی نائب وزیراعظم سے ملاقات کا انتظار کیوں کرنا پڑا۔ملک کی تمام پارٹیوں نے ستمبر میں ایک اے پی سی میں منظور کی گئی قرارداد کے ذریعے حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اس کے بعد سے حکومت کی طرف سے مسلسل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
بعض مبصر اس سے یہ قیاس کر رہے تھے کہ انتہا پسند گروہوں میں تفریق اور انتشار کی وجہ سے ان مذاکرات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے تا کہ مخالف گروہ انہیں ناکام بنانے کے لئے کوئی منفی رول ادا نہ کر سکیں۔ ان اندازوں کے مطابق تحریک طالبان درجنوں مختلف الخیال گروہوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بعض انتہا پسند عناصر ہر طرح کے مذاکرات کے خلاف ہیں۔ اس لئے اگر مذاکرات میں شامل وفود کے ناموں اور اس مقام کا اعلان ہو گیا جہاں یہ مذاکرات ہو رہے ہیں تو یہ گروہ اپنی بات منوانے کے لئے وفود میں شامل ارکان پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ان قیاس آرائیوں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی زبردست نکتہ چینی کے باوجود حکومت کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ کابینہ کے اراکین مختلف مباحث اور بیانات میں یہ ضرور کہتے رہے ہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے یا کہ یہ مذاکرات کسی دبائو میں نہیں کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے چند ہفتے قبل میاں نواز شریف نے امریکہ جاتے ہوئے لندن میں ہی میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان سے مذاکرات شروع ہو گئے تھے لیکن دہشت گردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے ان میں رخنہ پڑ گیا ہے۔
Nawaz Sharif
تاہم اس وقت بھی میاں نواز شریف نے صراحت نہیں کی تھی کہ کیا طالبان کے ساتھ رابطہ بحال ہے یا وہ منقطع ہو چکا ہے۔ اس دوران اپوزیشن کے سیاسی رہنما اور مبصرین یکساں طور پر مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں لیکن نہ تو انہوں نے یہ بتایا کہ ان کا آغاز کیوں کر ہو گا اور نہ ہی اس بات کی تصدیق کر پائے تھے کہ حکومت نے طالبان سے رابطہ کر لیا ہے اور اب وہ کسی نہ کسی سطح پر ایک دوسرے کی بات سن رہے ہیں۔
وزیراعظم سے منسوب جو اعلان اب لندن سے جاری ہؤا ہے وہ ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کے حوالے سے بے حد اہم ہے۔ قومی سطح پر اس سوال پر اتفاق رائے موجود ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کر لئے جائیں گے تا کہ ملک میں خوں ریزی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بند ہو سکے۔ تاہم طالبان کی طرف سے اس دوران نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے کئی ہولناک واقعات سامنے آئے بلکہ ان کے لیڈروں نے انتہائی درشت اور اشتعال انگیز لب و لہجہ بھی اختیار کیا ہؤا تھا۔ اس کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے درمیان کسی قسم کی مواصلت کا امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔اب میاں نواز شریف کی طرف سے مذاکرات کی تصدیق تو کی گئی ہے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں اور نہ ہی یہ خبر سامنے آ سکی ہے کہ یہ مذاکرات کس سطح پر ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہے۔ تاہم وزیراعظم نے اپنے بیان میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ یہ مذاکرات ملک کے آئین کی حدود میں ہوں گے۔ بیان کے اسی حصہ کو سامنے لاتے ہوئے بی بی سی اردو نے وزیر اعظم کے بیان پر یہ سرخی جمائی ہے: ” دعا گو ہوں کہ مذاکرات آئین کے دائرے میں ہوں”۔درحقیقت اس مقصد کے لئے دعا سے زیادہ حکمت عملی اور قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ حکومت یا وزیراعظم ملک کے آئین کے پاسبان ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی طور اس کی خلاف ورزی نہ ہونے دیں۔ اس مقصد کے لئے گو کہ وزیراعظم ایک اچھے مسلمان کی طرح دعا بھی کرتے رہیں لیکن انہیں اس امر کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ آئین پاکستان اور پاکستانی عوام کی خواہشات کے برعکس کسی قسم کے معاہدے میں شریک ہوں گے۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ شریعت کے نفاذ کے بارے میں طالبان کے سخت گیر مطالبات کو مانا نہیں جا سکتا۔ وہ جس قسم کی شریعت ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، آئین پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ان مذاکرات کے دوران حکومت پر یہ سنگین ذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ طالبان کو کسی طرح بھی آئین پاکستان سے روگردانی کی اجازت نہ دیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے معاہدے میں یہ بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ طالبان اور ان کے حلیف گروہ پاکستان کے آئین کا احترام کرتے ہیں، حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور افواج پاکستان کو اس ملک کا محافظ سمجھتے ہیں۔ نک کلیگ کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکومت ملک کے انسداد دہشت گردی اداروں اور سکیورٹی فورسز کی صلاحیت اور استعداد بڑھانے پر کام کر رہی ہے۔ ان فورسز کو ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ وزیراعظم نواز شریف کے بیان کا یہ حصہ بے حد اہم ہے۔
مذاکرات کے دوران طالبان کے لیڈروں پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ حکومت کسی کمزوری کی وجہ سے بات چیت پر آمادہ نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بنیادی طور پر خوں ریزی کے خلاف ہیں۔ اسی سنہری اصول کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کو طالبان جیسے لاقانونیت پھیلانے والے انتہا پسند گروہوں سے مذاکرات کا حق دیا گیا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے کوئی ایسا مشترکہ نقطہء نظر اختیار کرنا مقصود ہے جو انتہا پسندی کے خاتمہ کا جواز بن جائے۔ ورنہ طالبان اور ان کے حامیوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ پاکستانی عوام اور افواج گزشتہ دس برس کے دوران اس جنگ میں بے بہا جانی اور مالی قربانی دے چکی ہیں۔ اور وہ کسی صورت دہشت گردی اور لاقانونیت کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اس دوران تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی طرف سے ایک بار پھر غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مذاکرات کے دوران کوئی ڈرون حملہ ہؤا تو خیبر پختونخوا کے راستے نیٹو کی سپلائی روک دی جائے گی۔ یہ بیان بے بنیاد اشتعال انگیزی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ خیبر پختونخوا نیٹو سپلائی کا واحد روٹ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی معاملات فراست اور معاملہ فہمی سے طے ہوتے ہیں۔ انہیں دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے ذریعے حل کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔ ایک ایسے موقع پر یہ بیان غیر ضروری بھی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی ذمہ داری چوہدری نثار پر ڈال دی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مذاکرات کرنا میں کس حد تک جائیں گے اور اس اہم بوجھ کو کس طرح برادشت کر سے پائیں گے۔