تحریر : سید انور محمود نواز شریف ہمیشہ سے ہی دہشتگردوں کےلیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ، اس کی وجہ بھی موجود ہےکہ انہوں نے اپنے سیاسی باپ ضیاءالحق سے یہی کچھ سیکھا ہے، جو اس ملک میں نام نہاد جہاد کے نام پر فسادیوں کو لایا تھا اور جو اب پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشتگردی کرتے ہیں۔1999 میں نواز شریف دہشتگردی کی آرزو میں بولے میرا دل چاہتا ہے کہ میں پاکستان میں بھی طالبان جیسی حکومت بناو، لیکن جنرل پرویزمشرف نےانہیں ایسا کرنے کا موقعہ نہیں دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے 12 اکتوبر 1999 کونواز شریف کی حکومت ختم کرڈالی اور نواز شریف ملا عمر نہ بن سکے۔ 6 جون 2013 کو نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو اُن کی حکومت ایک سال تک پوری قوم کو دہشتگردوں سے مذاکرات کے نام پر دھوکا دیتی رہی، اُنکے نامزد کردہ دہشتگردوں کے حامی ہی حکومت کی جانب سے طالبان دہشتگردوں سے مذاکرات کرتے رہے، ان مذاکرات کے درمیان طالبان دہشتگردمستقل پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔ آٹھ جون 2014 اتوار کی درمیانی شب کو کراچی کےجناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرطالبان دہشتگردوں کی جانب سے حملہ ہوا۔15 جون کو پاکستانی عوام کو آئی ایس پی آر کے پريس ريليز کے زریعے آپریشن شروع ہونے کی اطلاع ملی، افواج پاکستان نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف ایک بھرپور آپریشن کا آغاز کیا۔ آپریشن کا نام “ضرب عضب” رکھا گیا۔ اگرچہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل نے اپنے ریٹائرہونے سے پہلے آپریشن ضرب عضب کے زریعے دہشتگردوں کو کافی حد تک کمزورکردیا تھا لیکن دہشتگردی مکمل طور پرختم نہ ہوسکی جس کی وجہ نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان ہیں جن میں سےایک وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار ہیں جو قدم قدم پر دہشتگردوں کی حمایت کررہے ہوتے ہیں۔
یکم نومبر2013 کو ایک امریکی ڈرون حملے میں دوسرئے لوگوں کے ساتھ ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل اور طالبان دہشتگردوں کا سردارحکیم اللہ محسود میں مارا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار جواس ڈرون حملے کے بعد پنجابی فلموں کے مشہور کردار سلطان راہی مرحوم کی طرح اپنے بھائی دہشتگردحکیم اللہ محسود کی موت پر امریکہ کے خلاف بڑھکیں ماررہے تھے، چوہدری نثار کی بڑھکیں دراصل اپنی حکومت کی ناکامی کا اعلان تھیں۔ جو لوگ زرا سا بھی سیاسی شعور رکھتے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ جو وزیرداخلہ ایک شخص کوجو پانچ گھنٹے اسلام آباد کے ریڈ زون پر قابض رہا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے وہ امریکہ کے خلاف کیا کرسکتے ہیں۔ اپر دیر میں بارودی سرنگ کے دھماکے سے پاک فوج کے میجر جنرل لیفٹینینٹ کرنل اور لانس نائیک ہلاک کیے جاتے ہیں اور دہشتگرد طالبان اُسکی زمہ داری بھی قبول کرتے ہیں، اُسی دن وزیرستان میں چار سیکورٹی اہلکار راکٹ حملے میں مارئے جاتے ہیں۔ پشاور میں 22 ستمبرکو اقلیتوں پر خود کش حملہ، 27 ستمبر کوسرکاری بس میں بم دھماکا اور 29 ستمبر کو قصہ خوانی بازار میں بم دھماکا، ان دھماکوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے گے۔ وزیر داخلہ منظر سے غائب صرف رسمی تعزیت کے علاوہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ سولہ دسمبر 2014کوپشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو مار ڈالا کردیا۔
132طلباء کی موت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔افسوس اتنے بڑئے واقعے میں بھی وزیر داخلہ چوہدری نثار منظر سے غائب، اس کے بعد بھی پشاور، کوئٹہ،تربت، لاہور، ملتان، کراچی اورشکار پور میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں لیکن وزیر داخلہ کی مرنے والوں یا ان کے گھر والوں سے کوئی ہمدردی نہیں دکھائی دی۔ آٹھ اگست 2016 کی صبح صوبہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں ایک بڑی دہشتگردی اس منصوبہ کے تحت ہوئی کہ پہلے چھوٹا واقعہ اور پھر اس واقعے کی وجہ سے جمع ہونے والے زیادہ افراد کو نشانہ بنایا جائے ۔ سانحہ کوئٹہ دو حصوں پر مشتمل تھا جوبغیر کسی رکاوٹ کے مکمل ہوا اور 74 افراد ہلاک ہوئے۔ پہلے کوئٹہ کے علاقے منوجان روڈ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلاول انور کاسی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس سے وہ جاں بحق ہوگئے، ان کی لاش سول اسپتال لائی گئی، لاش ہسپتال پہنچی تو وکلا بھی جمع ہونا شروع ہو گئے۔پھر دہشتگردی کے دوسرئے حصے پر عمل ہوا، وکلا کی بڑی تعداد اسپتال میں موجودتھی اور جب بلال انور کاسی کے درجنوں ساتھی وکلا ان کی لاش کی طرف بڑھے تو خودکش حملہ ہوا، ہرطرف لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں۔10اگست کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سانحہ کوئٹہ کی ابتدائی تفتیش میں چند شواہد ملے ہیں، سانحہ کوئٹہ ایک معمول کا دہشتگرد حملہ نہیں تھا۔
Supreme Court
سانحہ آٹھ اگست سول ہسپتال کوئٹہ سے متعلق سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس فیصل عرب پرمشتمل بینچ نے اس سانحہ کی تحقیقات کیلئے ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا ، یہ کمیشن سپریم کورٹ کےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ پرمشتمل تھا۔ اس ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی پر مبنی پروپیگنڈا روکنے میں ناکام رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دیا جائے اور اس کے اہداف واضح ہوں۔کمیشن نے انسدادِ دہشتگردی کے ادارے نیشنل کاونٹرٹیررازم اتھارٹی(نیکٹا) کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی اور تجویز دی کہ نیکٹا کو فعال بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کےانکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نہایت غیر ذمہ دار ہیں۔چوہدری نثار نے ساڑھے تین سالوں میں نیکٹا کا صرف ایک اجلاس بلایا، جس کا فیصلہ بھی چوہدری نثار نے ہی قدموں تلے روند دیا۔چوہدری نثار کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے ملتے رہے ہیں۔کالعدم تنظیموں کے کارکنان کے قومی شناختی کارڈ کے اجراء کا مطالبہ چوہدری نثار نے منظور کیا۔معروف دہشتگرد تنظیموں پر پابندی لگانے کے کام میں رکاوٹ چوہدری نثار بنے۔
دہشتگردوں کا سب سے بڑا ہمدرد لال مسجد کا ملا عبدالعزیزسولہ دسمبر 2014کے سانحہ پشاور میں ہونے والی دہشتگردی کو جائز قرار دیتا ہے، سول سوسایٹی احتجاج کرتی ہے، سول سوسایٹی کو دھمکیاں ملتی ہیں بلکہ سول سوسایٹی کے ممبر کو قتل کردیا جاتا ہے، چوہدری نثار کی ہمدردیاں دہشتگرد ملا عبدالعزیز کے ساتھ ہیں۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں چوہدری نثار کالعدم اہلسنت والجماعت کے احمد لدھیانوی سے ملتے ہیں اور جب کمیشن اس بات پر سے پردہ اٹھاتا ہے تو چوہدری نثار جواب میں فرماتے ہیں کہ میں تو احمد لدھیانوی کوجانتا ہی نہیں تھاجبکہ جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان امیر العظیم کا یہ بیان سامنےآتا ہے کہ چوہدری نثار کی خواہش پراحمدلدھیانوی نے ان سے ملاقات کی تھی۔ شاید چوہدری نثار یہ یاد رکھنا نہیں چاہتے کہ ایک پروگرام میں چائے کے وقفے کے دوران کالعدم اہلسنت والجماعت اور کالعدم جماعت الدعوہ کے ایک ایک لیڈر بھی ان کے ساتھ موجود تھے، وہ کہہ رہے ہیں کہ” پتا نہیں“۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ سانحہ کوئٹہ پرکمیشن کی رپورٹ یکطرفہ ہے، کمیشن نے ہماراموقف سنے بغیرذاتی الزامات لگائے گئے ہیں ۔رپورٹ کو ہر فورم پر چیلنج کرونگا، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں اپنا مؤقف پیش کرونگا۔
کمیشن کی پوری کارروائی کے دوران حسب دستور وزیر داخلہ بے فکر تھے کیونکہ وہ کچھ اور نہیں لیکن ہماری عدلیہ کی تاریخ سے ضرور واقف ہیں ،لیکن کبھی کبھی جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے جج یسوع مسیح کا روپ دھار لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت میں تنگ نظراور دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہیں جو نیشنل ایکشن پلان کی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات متعدد بارریکارڈ پر موجود ہے کہ چوہدری نثار دہشتگردوں کے انجام پر روتے رہے ہیں۔حکومت نیشنل ایکشن پلان پرعمل کرنا نہیں چاہتی کیونکہ چوہدری نثار نیشنل ایکشن پلان میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سےلیں ، کیونکہ اس رپورٹ نے چوہدری نثار کی وزارت داخلہ کی ناکامیاں بہت واضح طور پر بیان کردی ہیں اور وزیرداخلہ چوہدری نثار کےلیے بہتر ہوگا کہ وہ جلد از جلد اپنے عہدئے سے مستعفی ہوجایں۔