تحریر : انجینئر افتخار چودھری یہ اتنی بڑی ناپاک سازش تھی جو عام آدمی کی نظر میں ایک کوشش کہی جا سکتی ہے مگر حیرت ہے وہ کون تھا جس نے شادمان چوک کا نام چودھری رحمت علی چوک سے بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھنے کی انتہائی بھونڈی اور گھٹیا حرکت کی ہے۔لاہور کا کوئی ادارہ ہو گا جس نے اس کی منظوری دی ہو گی ادارے میں بیٹھا کوئی افسر ہو گا جس نے اپنے دستخطوں سے اس کو منظور کیا ہو گا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ لیڈر جس نے پاکستان کا نام ہی نہیں نظریہ پاکستان بھی دیا اسے نظر انداز کر کے ایک ایسے شخص کے نام کیا جس کا پاکستان کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں بھگت سنگھ نے انگریز حکومت کے خلاف جدو جہد کی مگر آزادی پاکستان سے اس کا کیا ناطہ؟ان کی جد و جہد اپنی جگہ مگر میرا سوال اس سکھ پرست افسر سے ہے کہ مجھے یہ بتائیں کہ اس میں چودھری رحمت علی کو کیوں رگڑا لگایا گیا ۔اور ان کے نام سے جڑے ہوئے چوک کو کیوں سکھ لیڈر سے وابستہ کر دیا؟۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک مدت سے ایک مضبوط لابی تحریک پاکستان کے اس ہیرو کے خلاف سر گرم ہے۔پاکستان کے ایک معروف جریدے نے تو ان کے خلاف مہم چلائے رکھی۔حالانکہ اس اخبار کے بانی نے چودھری رحمت علی کو پاکستان کے اکابرین کی فہرست میں درج کیا اور ان کی وفات پر اداریہ بھی لکھا ۔اللہ مرحوم مجید نظامی کو جنت بخشے مجھ سے تو خصوصی لگائو رکھتے تھے میں نے ان کو ایک بار لکھا کہ آپ مردہ رحمت علی سے اتنے خائف ہیں جو ان کے جسد خاکی کو پاکستان نہیں آنے دیتے۔انہوں نے مجھے لاہور بلوایا اور ہمارا مکالمہ ہوا۔اب وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے چودھری صاحب تو امانتا اغیار کے دیس میں دفن ہیں۔ کیا نوائے وقت حمید نظامی کی سوچ کو چلائے گا یا جناب مجید نظامی کی یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے ۔پاکستان کے لوگ چودھری صاحب سے دل و جاں سے پیار کرتے ہیں۔کوئی تو ان کے تجویز کردہ نام کے الف سے افغانہ کو بنیاد بنا کر اپنا الو بھی سیدھا کرنے چاہتے ہیں لیکن اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی نے انہیں کبھی لیڈر تسلیم نہیں کیا اس لئے کہ وہ مسلمانوں کی بات کیا کرتے تھے پشتونوں سندھیوں پنجابیوں اور سرحدیوں کی لیڈری نہیں کی۔یہ لوگ تو سرحدی گاندھی کے چیلے ہیں ان کا پاکستان سے کیا لینا دینا؟۔
چودھری رحمت علی کو ان کا مقام ملنا چاہئے۔ایک بار سردار عبدالقیوم صاحب نے علامہ اقبال کے بارے میں کوئی بات کی جس کی وجہ سے ان کے خلاف نوائے وقت میں شور مچا تو میں نیجنرل حمید گل صاحب سے بات کی اس مرد درویش کا کہنا تھا کہ کاش ہم اپنے لیڈروں کی عزت کرتے اور اور ان کے مقام کو سمجھتے۔ہم نے چودھری رحمت علی کو ان کا حصہ نہیں دیا اب بات علامہ اقبال تک پہنچی ہے تو دیکھئے ہم اس ملک سے قائد اعظم کو کب دیس نکالا دیتے ہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے بھی چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی حمائت کی تھی۔یہ ساری چیزیں روزنامہ خبریں پاکستان اور اردو نیوز میں چھپ چکی ہیں اور میرے جدہ کے قیام کے دوران جو تقریبات ہوتی رہیں ان میں جو قراردادیں پاس ہوئیں اس میں درج ہیں۔
Chaudhry Rehmat Ali
مجیب رحمان شامی ضیاء شاہد تو کئی بار مطالبہ کر چکے ہیں۔موجودہ دور میں تزئین اختر روزنامہ اذکار کے ذریعے کئی بار خصوصی ضمیموں میں چودھری صاحب پر مضامین چھاپ چکے ہیں۔ایک شخص کی عزت افزائی تو درکنار ان کے نام سے ایک چوک کا نام بھی کسی اور کے نام پر رکھ دینا کوئی اتفاق نہیں مجھے اس کے پیچھے ان چند لوگوں کے ذہنوں میں چھپا فتور نظر آ رہا ہے جو چودھری رحمت علی کو کسی خاص برادری کا لیڈر گردانتے ہیں۔مجھے یہ نہیں پتہ ایسا کیوں سوچا جاتا ہے ہاں اگر چودھری رحمت علی پاکستان کی بجائے گجرستان کا مطالبہ کرتے تو بات سمجھ میں آتی ہے کوئی دوسری برادری قوم یا قبیلہ اس کی مخالفت کرے۔میںایک گجر بھائی کی اس بات سے متفق ہوں کہ چودھری صاحب کا نام بھی گجر قوم بس شغل لگانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ورنہ ہم نے اسمبلی کے فلور پر کبھی بھی حکومتی بینچوں میں موجود گجر نمائیندوں سے نہیں سنا اور نہ ہی اپوزیشن میں بیٹھنے والوں نے کوئی آواز اٹھائی ہو۔یہ سوال اپنی جگہ ہے مگر چودھری صاحب کے نام سے منسوب چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام سے رکھا جانا کہاں کا انصاف ہے۔ہم اگر تحریک آزادی ہند کے ہیروز کے ناموں کو زندہ کرنا چاہتے ہیں تو سوچ لیجئے پاکستان دو قومی نظرئے پر بنا تھا پھر پاکستان کے وجود کو بھی مٹانا ہو گا۔بھگت سنگھ نے قربانی دی۔وہ انگریز کے ہندوستان پر تسلط کے خلاف تھی پاکستان کے حصول کے لئے نہیں تھی مگر مجھے یہ بھی بتا دیجئے کہ ہندوستان میں کسی ایک جگہ کا نام بھی غازی علم دین شہید کے نام سے ہے۔
غازی کی شہادت اس بات کی گواہی تھی کہ مسلمان اپنے نبیۖ سے پیار کرتے ہیں ان کے لئے سر دے بھی سکتے ہیں اور لینے میں بھی انہیں کوئی تامل نہیں ہو گا۔پاکستان بن گیا کتنے لوگوں کی قربانی ہوئی کتنے سہاگ اجڑے اور کتنی بیٹیاں اور بیٹے قربان ہوئے مجھے ضیاء شاہد صاحب بتا رہے تھے کہ جسٹس شریف کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پچاس ہزار کے قریب مسلان عورتوں کو سکھوں نے زبردستی حرم میںلے لیا اور اتنی ہیتعداد میں پنجاب کے اندھے کنووں میں گر کر شہید ہوئیں۔یہ ایک اسلامی ملک کے لئے قربانی دی گئی تھی جہاں بر صغیر کے لوگوں کو یہ دلاسہ دلایا گیا تھا کہ ایک ایسا ملک ہو گا جہاں اپنی مرضی سے جئیں گے اور اپنے پیارے نبیۖ کے دین پر عمل کریں گے۔اس مینکوئی شک بھی نہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے کا پانی بھی ہندو اور مسلم تھا ہوٹل بھی ہندو اور مسلم تھے۔گائے کو ذبح کرنا جرم تھا ہم نے آزادی حاصل کی۔
سچ پوچھیں اس وقت بھی پاکستان خطے کا دبئی ہے ہمارے لوگوں کا رہن سہن انڈینز سے ہزار درجہا بہتر ہے۔صحتیں اچھی ہیں قد کاٹھ اچھے ہیں۔پہلے قحط سالی سے مرتے تھے اب ہم زیادہ کھا کے مرتے ہیں۔یہ سب آزاد پاکستان کا ثمر ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم کچھ زیادہ ہی آزاد ہو گئے ہیں کسی حد تک مادر پدر آزاد اتنے آزاد کے ہماری آنکھوں پر چربی سی چڑ گئی ہے ہمیں چودھری رحمت علی اور بھگت سنگھ میں کوئی فرق ہی نہیں نظر آتا۔تحریک حرمت رسولۖ کو مبارک جنہوں نے یہ نیک کام کیا اور اس جج صاحب کو بھی مبارک باد جنہوں نے ایک ہی پیشی میں یہ ناپاک فیصلہ کالعدم قرار دے کر چوک کا نام چودھری رحمت علی کے نام کر دیا۔بھگت سنگھ چوک انڈیا میں بننے دیں ہنس کی چال نہ چلیں۔