تحریر: انجینئر افتخار چودھری چلئے ایک اور مطالبہ سامے آیا ہے۔ ہماری کشمیری برادری نے سوشل میڈیا پر مطالبہ کر دیا ہے کہ چودھری غلام عباس کی قبر کے احاطے پر لینڈ مافیا قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ لہذہ راولپنڈی سے ہم چودھری صاحب کا جسد خاکی آزاد کشمیر منتقل کر دیاجائے تا کہ سکوں مل جائے ان لوگوں کو جو چودھری صاحب کی وجہ سے اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں حاصل کر پا رہے جنہیں دنیاوی لالچوں نے اس قدر حریص بنا دیا کہ وہ قبروں کو بیچ کھانا چاہتے ہیں۔
خود غرض انسان اپنے گھروں کے لئے کنالوں جگہ رکھتا ہے مگر ابدی جگہ کے لئے کچھ نہیں۔ان غرض کے بندوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ مردوں کو جلا کر وہاں پلازے کھڑے کر دیں۔چودھری غلام عباس کے ساتھ بھی یہی لوگ ہیں جو انہیں وہاں سے بے گھر کرنا چاہتے ہیں۔یقینا اس میں نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کا قصور ہے البتہ اتنی ذمہ داری تو ان کو ہے کہ زعمائے ملت کے آخری ٹھکانے تو محفوظ بنا دیں۔
یقین کیجئے دل دکھی ہوا ،چودھری صاحب کو ریاست کے لوگ قائداعظم ثانی بھی کہتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کے لئے ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں انہوں نے اس وقت مسلم کانفرنس بنائی جب شیخ عبداللہ نیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا اعلان کر چکے تھے۔ان کی خدمات پر روشنی ڈالنے کا وقت نہیں لیکن اتنی بات ضرور کہوں گا کہ کیا ہم اپنے اکابرین کے ساتھ ایسا ہی سلوک رکھیں گے۔
Chaudhry Ghulam Abbas-Grave
اگر ان کا جسد خاکی یہاں سے جاتا ہے تو کل کو کسی لیڈر کی قبر محفوظ نہیں ہو گی۔مر کے چین نہ پانا اسے ہی کہتے ہیں۔میں دل پے ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں پاکستان کی دیگر اکائیوں کے ساتھ ہم کچھ اچھا نہیں کر رہے۔پنجاب کو ایک اور گالی پڑ گئی پنجاب ایک بار پھر پاکستانیت کی عدالت میں مجرم بنا کھڑا ہے۔افراد کے گناہ اقوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔کسی کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہ ہو گی لیکن بہت سوں کے لئے یہ انتہائی تشویش ناک خبر ہے۔
چودھری صاحب کا جسد خاکی پاکستان کی سر زمین پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ایک نشانی ہے۔خاص طور پر پنڈی میں ان کی قبر ہمارے لئے باعث صد افتخار ہے۔یہ کشمیریوں سے ایک رشتے کا ٹوکن بھی ہے۔راولپنڈی جسے سری نگر کی منڈی کہا جاتا ہے یہاں سے ان کے جسد خاکی کی آزاد کشمیر منتقلی کا مطالبہ کشمیری بھائیوں کا پاکستان سے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے مایوس ہو رہے ہیں اور یہ بات شائد حادثہ نہیں سانحہ ہے۔
میں ان صفحات پر اپنے کشمیری بھائیوں سے درخواست کروں گا ایسا کبھی سوچنا بھی نہیں۔فیض آباد جہاں یہ مقبرہ ہے وہ جگہ اب کوڑیوں کی بجائے کروڑوں کی ہو چکی ہے۔مافیا کا تو بس نہیں چلتا ورنہ وہ داتا صاحب کی مسجد کو بھی بیچ کھائیں۔یہ سب کچھ نہ تو حکومت پنجاب کر رہی ہے نہ پنڈی انتظامیہ۔ضروری امر یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر باضابطہ طور پر کشمیری النسل وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ کریں کہ کشمیر کے اس سپوت کی قبر کا احترام کیا جائے اور کسی بھی باثر شخص کو یہ مذموم حرکت نہ کرنے دیں۔کہ وہ ان کی ابدی رہائیش کے کسی بھی حصے کو ہڑپ کرے۔
ایک اور بات بھی اچھی یہ ہے کہ راولپنڈی کے آنے والے میئر بھی کشمیری النسل ہیں سردار نسیم خان کی توجہ بھی ان کالموں کے ذریعے ہم چاہیں گے۔میرا ان سے مطالبہ ہے جب وہ حلف اٹھا ئیں تو ان کی قبر پر حاضری دیں پھولوں کی چادر چڑھائیں۔ اور اس بات کی یقین دہانی بھی کرائیں کہ ہم پنڈی وال اپنے محسنوں کے قدر دان ہیں۔
Chaudry Ghulam Abbas
میں اس مسئلے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتا ورنہ ہم اسے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بھی اٹھائیں گے۔ہم تو پہلے ہی ایک چودھری رحمت علی کو ترسے ہوئے ہیں اپنے ایک عظیم قائد کو یہاں سے کیوں جانے دیں۔پاکستان اپنے ان محسنوں کو کبھی نہیں بھولائے گا جنہوں نے اپنی زندگی دو قومی نظریے کے لئے وقف کر دی۔ویسے بھی زندہ قومیں اپنے محسنوں کو تکلیف نہیں دیتیں بلکہ ان کا حترام کرتی ہیں۔
ہم چودھری غلام عباس کو ایک اور چودھری رحمت علی نہیں بننے دیں گے جنہیں ہم برطانیہ سے لانے کا مطالبہ ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔کشمیری بھائیو ہم اللہ کے فضل و کرم سے انہیں اپنا بھی ہیرو سمجھتے ہیں۔انہوں نے وادی ء کشمیر میں مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم تھاما اور اس وقت پاکستان کا ساتھ دیا جب قائد اعظم اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہے تھے۔
مجھے اپنے صحافی بھائیوں سے بھی درخواست کرنی ہے کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کریں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب یہ خبر کشمیر کی دوسری جانب جائے گی لوگ کیا کہیں گے وہ مجاہدین کیا سوچیں گے۔ہند تو اس خبر کو کشمیریوں کو سنا کر محظوظ ہو گا۔اللہ نے کرے ہم پاکستانیت کی اس علامت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ہم تو چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کے منتظر ہیں کشمیری بھائیو آپ ہم سے یہ اعزا چھیننا چاہتے ہیں ہر گز نہیں۔