افتخار محمد چودھری 2005 سے پاکستان کی عدالت عظمٰی کے منصف اعظم ہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہیں۔ 9 مارچ 2007ء کواس وقت کے صدر پاکستان اور فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔ اس معطلی کے لیے “غیر فعال” کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ قانون کی رو سے وہ تب بھی منصف اعظم رہے۔ جس کا اعتراف حکومتی وکلاء نے بھی کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمٰی کے منصف اعظم کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر معطل کیا گیا تھا۔
افتخار چودھری حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں، اور دوسری بے قاعدگیوں پر ازخود اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ معطلی کے خلاف افتخار چودھری نے عدالت اعظمٰی میں مقدمہ دائر کیا۔ 20 جولائی 2007ء کو عدالت نے تاریخ ساز فیصلے میں افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا اور صدارتی ریفرنس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے نتیجہ میں افتخار چودھری اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہو گئے۔
3 نومبر 2007ء کو فوجی آمر پرویز مشرف نے ایک بار پھرملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیااور چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت متعددججز کو معطل کر دیا۔ اس آمریت کے خلاف وکلاء اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مل کر جدوجہد کا آغاز کیا۔ تاہم 2008 انتخابات کے بعد بھی حکومت ان ججز کو بجال کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔جس وقت جب وکلا تحریک کا ہر جگہ والہانہ استقبال ہورہاتھا پاکستان کے ہر شہر سے وکلاء کے ساتھ ساتھ عوام بھی بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔مجھے بھی اس تحریک میں شمولیت حاصل کرنے کا اعزاز پتوکی بار کے ساتھ ہوا تھا۔
ایسے موقع پر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کااعلان کردیا۔لانگ مارچ کوروکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔ لانگ مارچ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔لانگ مارچ کے پریشر کو پیپلز پارٹی کی حکومت برداشت نہ کرسکی اور نصف شب کو حکومت نے ججز بحالی کا اعلان کر دیا۔
Yousaf Raza Gillan
بالآخر مارچ 2009ء میں عوام کے بھرپور دباؤ اور خصوصاً نواز شریف کے لانگ مارچ کرنے کی وجہ سے وزیراعظم گیلانی نے بحالی کا اعلان کیا جس کے نتیجہ میں 21 مارچ 2009ء نصف شب افتخار چودھری نے تیسری مرتبہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری عدالت عظمیٰ کے سربراہ کی حیثیت سے ایک جارحانہ اور طویل اننگز کھیلنے کے بعد ریٹائر ہورہے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے لوگ ان کی تعریف میں قصیدے لکھیں گے اور سوموٹو ایکشن سے ڈرنے والے بہت سے لوگ اب ان پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے تو بہت سے ہیں۔ دل میں حسد اور بغض رکھنے والے غروب آفتاب کا انتظار نہیں کرتے اور اہم عہدوں پر فائز شخصیات جوں جوں اپنے عہدے کے اختتام کی طرف جانے لگتی ہیں ایسے ہی لعن طعن کرنے والے لوگوں کی بہادری میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایسے موقعہ پر یہ ضروری ہے کہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے۔
بے شک آج کل وکلاء کی اس تاریخ ساز تحریک میں حصہ ڈالنے والے بہت سے دعویدارہیںلیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اس وقت اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے حکومتی ایماء پر بہت سے وکیل اس تحریک کے خلاف اٹھے تھے مگر آج وہ وکلاء بھی چیف جسٹس کی تحریک کے دعویدار بنتے ہیں۔ اس تحریک کی ابتداء چیف جسٹس افتخار چوہدری اورچند وکلاء نے کی تھی اور یہ وکلاء بھی عام وکلاء تھے کوئی نامی گرامی یا سیاسی وکلاء نہیں تھے۔ بعد میں کچھ نامور اور سیاسی وکلاء نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس تحریک میں جان ڈالنے والوں میںمنیر اے ملک، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، علی احمد کرد، اطہر من اللہ اورپیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن سب سے نمایاں تھے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو 2007 میں ” لائر آف دی ائیر ” منتخب کیا ہےـ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہ ٹاپ اعزاز کسی غیر امریکی باشندے کو دیا گیا ہے
جہاں چیف جسٹس نے عدلیہ کی عزت بحال کرانے کے لیے اہم قدم اٹھائے اور بہت سے اہم کیس سنے ان میں ایک ایسا کیس آیا جس سے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کومشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔ چیف جسٹس کے بیٹے پر ملک کے پراپرٹی کنگ سمجھے جانے والی ایک کاروباری شخصیت سے چالیس کروڑ روپے لینے کا الزام لگایا۔ جس کے سارے ثبوت اس نے اسلام اباد کے صحافیوں کو گھر بلا بلا کر دکھا ئے ۔اس کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا بیٹا ساؤتھ آف فرانس میں چھٹیاں گزارنے گیا تھا اور اس کی ادائیگی اس نے کی۔ لندن میں میریٹ ہوٹل میں رہائش کے اخراجات بھی اس نے ادا کیے ۔ بے شک چیف جسٹس نے اس کیس سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا مگر ایسے ہیرو کے لیے یہ کیس باعث شرمندگی بنا۔
آج جب افتخار چوہدری عدلیہ کا وقار بڑھانے کے بعد ریٹائیرہورہے ہیں تو بہت سے لوگ خوش ہورہے ہونگے اور بہت سے لوگ ان کی ریٹائرمنٹ پر افسردہ ہونگے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دور کرپٹ لوگوں کے لیے عذاب بنا رہا۔ جولوٹ مار کررہے تھے انکو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔چیف جسٹس نے اپنے دور میں امیر اور غریب کا فرق نہیں رکھا اور انصاف کا بول بالا کیا۔
دعا ہے کہ اب نو منتخب چیف جسٹس تصدق جیلانی بھی چوہدری افتخار کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے گھر گھر میں انصاف کا چراغ جلائیں گے۔ پاکستان کو کرپشن سے پاک کریں گے۔ حاکم وقت کے آگے جھکنے کی بجائے عدلیہ کا وقار بلند کریں گے۔