تحریر : حاجی زاہد حسین خان انگریزی دور میں ہندوستان کے ایک گائوں کی مسجد کے سامنے والی زمین کا مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد کی زمین ہے۔ اور ہندووں کا دعویٰ تھاکہ یہاں پہلے ایک مندر تھا۔ اس لئے اس پر ہمارا حق ہے۔ دونوں فریق جب مرنے مارنے پر تل گئے تب معاملہ انگریز کی عدالت میں چلا گیا۔ وہاں دونوں فریقوں کا موقف سنا گیا۔ تب مقامی گواہوں کو طلب کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ دونوں فریقوں نے گواہ کے طور پر وہاں کے مقامی مولنا مولوی جمشید سہارنپوری کو نامزد کر دیا۔ مگر مولوی جمشید ایک سچے مسلمان اور پکے ہندوستانی کی حیثیت سے غاصب انگریز سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ کسی انگریز کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہ کرتے تھے۔ آخر دونوں فریقوں کے اصرار سے مولوی صاحب برقعہ پہن کر انگریز جج کی عدالت میں حاضر ہوئے ۔ اور گواہی دی کہ جج صاحب یہاں واقعی پہلے ایک مندر ہوا کرتا تھا۔ اس لئے اس پر ہندووں کا دعویٰ درست ہے۔
انگریز جج اور مسلمان حیران رہ گئے۔ تب انگریز نے فیصلہ سنایا کہ آج مسلمان ہار گئے ان کا دعویٰ غلط نکلا مگر انکا اسلام جیت گیا۔ انگریز جج نے تاریخی ریمارکس دئیے افسردہ مسلمان اور شادوفرحان ڈیڑھ سو کے قریب ہندو باہر نکلے مولوی جمشید سہارنپوری نے اپنی رہ لی چند قدم چلے تھے کہ پیچھے سے ہندو سرپرستوں کی آواز آئی ۔ مولوی صاحب ٹھہریں مسلمان سمجھے ہندو حملہ کرنے آرہے ہیں۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہندو قریب آئے اور وہ مولوی صاحب اور مسلمانوں کے قدموں میں پڑھ گئے۔ حضرت ہمیں بھی کلمہ پڑھا لیں۔ اس طرح اسلام اور مولوی صاحب سے متاثر ہو کر ڈیڑھ سو ہندووں نے کلمہ توحید پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ انگریز جج نے بھی متاثر ہو کر لکھ دیا۔ (آج اسلام جیت گیا) قارئین دو سو سالہ حکومت میں انگریزوں کی عدالتیں اکثر جانبداری فیصلے کرتی رہیں۔
ان کے پیچھے گائوں گائوں قریہ قریہ ان کے نامزد کردہ نمبرداروں چوکیداروں اور جاگیر داروں کا اہم رول رہا۔ دیہی علاقوں میں فوری پنچائتی فیصلوں نے بھی عدل وانصاف گھروں کی دہلیز پر پہنچایا۔ جس میں مقامی پولیس کا بھی اہم رول رہا۔ اس وقت کی پولیس نے اپنے تحقیقاتی ونگ بنا رکھے تھے ۔ جو اپنے چوکیداروں نمبرداروں اور کھرا کی پہچان کرنے والے کھوجیوں کے ذریعے بڑے سے بڑا جرائم اور قاتلوں چوروں اور مجرموں تک رسائی حاصل کر لیتے اس طرح بے گناہ ملزم بچ جاتے اور اصل مجرم انجام کو پہنچتے ۔ اس دور میں ایک مسلم ڈی ایس پی ۔ اللہ یار خان جو ایک پڑھے لکھے اور تجربہ کار پولیس آفیسرز تھے ان کے ہاتھوں لکھی ہوئی قلمبند کی ہوئی حقائق پر مبنی تحقیقی داستانیں ان کی کتابوں میںجرم و سزا کے عنوان سے لکھے واقعات پڑھ کر آج کے قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ کہ ان پرانے طور طریقوں اور تحقیقی اندا ز سے وہ کیسے بڑے پیچیدہ حادثات اور واقعات کی تہہ تک پہنچتے رہے۔
Justice
حل کرتے رہے۔ جبکہ اس دور میں نہ ٹیلی فون او ر نہ ہی تیز ترین مواصلات کی سہولیات میسرتھیں۔ گھوڑوں گدھوں کی سواریوں پر وہ اپنے فرائض سر انجام دیتے انگریزوں کا ریل کا منظم نظام اور پٹڑیوں کا بچھایا ہوا جال عوامی مسائل کے حل میں اہم رول ادا کرتا حتی کہ اس دور کے وکلاء نے بھی اپنے اپنے تحقیقی ونگ بنا رکھے تھے۔ اور جاسوس اورکھوجی پال رکھے تھے۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ اتنے بڑے ملک میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ درست ہے کہ انگریزوں نے ہندوستانی وسائل کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا مگر انتظامی عدلی او رحکومتی امور منظم انداز میں چلا کر دو سو سالہ دور قلیل میں کشمیر پر حکمرانی کا لوہا منوایا۔ مگر آج بدقسمتی سے ستر سال آزادی کے بعد نہ ہی ہم کامیاب حکمرانی چلا سکے اور نہ ہی ملکی وعلاقائی امور بہتر انداز سے چلا سکے۔ اور نہ ہی سستا عدل و انصاف عوامی دہلیز تک پہنچا سکے۔ ہماری عدالتیں انتظامیہ کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ کہیں بھی ڈنڈی مارنے سے نہیں چونکتی۔
اس جدید دور میں جہاں تیز ترین ایجادات فون سیٹ ۔ جدید ترین مواصلاتی نظام کی موجودگی ، جدید تحقیقی مشینوں ڈی این اے ٹیسٹوں کی سہولیات کے باوجود ہم مجرموں تک نہیں پہنچ پاتے اور اکثر بے گناہ ملزم ہمارے انصاف کی بھینٹ چڑھ جاتے۔ او ر چرب زبان مہنگے ترین وکلا ء اور جھوٹے اور کرائے دار گواہوں کی بدولت اصل مجرم باہر نکل آتے ہیں۔ تحقیقی اور تفتیشی عمل نہ پولیس اداروں میں ہے۔ اور نہ ہی وکلاء اور ججوں کے کورٹس میں ہے۔ ہماری پولیس صرف تھرڈ ڈگری طریقہ کے استعمال سفارشی ہتھیار اور رشوت ستانی کا بازار کھولے اپنے امور چلا رہی ہے۔ اس طرح انصاف کا قتل اور اکثر سالوں بے گناہ ملزموں کوجیلوں میں ڈالے اور جعلی پولیس مقابلوں کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے۔ انکا کوئی تحقیقی تفتیشی اور جاسوسی ذریعہ نہ ہونے سے عدل و انصاف کا قتل اور عوام کا استحصال کا عمل جاری و ساری ہے۔
ہماری عدالتوں اور وکلاء برادری کا انحصار بھی صرف و صرف جھوٹے گواہوں چرب زبانی ہتھکنڈوں اور بھاری بھرکم فیسوں پر ہی منحصر ہے۔ ہمارے اکثر ججوں کا کردار بھی حکومتی دبائو اثر و رسوخ رکھنے والے عناصر ناتجربہ کاری کی بنا پر آزادانہ فیصلہ سازی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اور اگر آزادانہ فیصلے کئے بھی جائیں تو عملدرآمد نا ممکن بن کر رہ جاتا ہے۔ رہی سہی کسر یں اوپر کی عدالتیں ایک دوسرے سے اختلافی فیصلوں کے ذریعے نکال دیتی ہے۔
ایسے میں سستا اور آسان انصاف موجودہ دور میں صحرا میں سُراب بن کر رہ گیا ہے۔ اوپر سے مقدمات کی بہتات نے فیصلوں کی سالوں طوالت دادا کا مقدمہ کرنا اور پوتے کا فیصلہ سننا۔ مدعی اور استغاثہ کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ایسے میں آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں ہماری دھرنوں اور احتجاجی سیاست نے ہماری عدالتوں کی فیصلہ سازی اورججوں کے کردار سے غیر مسلم اقوام کو کیونکر متاثر ہوںبلکہ اپنے بھی متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔ قارئین آج بھی ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے۔ مجرموں کو سزائیں بے گناہوں کو چھوٹ اور عوامی دہلیز پر سستا اور فوری انصاف مل سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہماری پولیس عدالتیں اور وکلاء اپنے اپنے تحقیقاتی تفتیشی اور جاسوسی ونگ بنا کر جرائم کی جڑ اور مجرموں کے گھروں تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس طرح بے گناہ کا بھینٹ چڑھنا سالوں جیلوں میں سڑنا بند ہو کر رہ جائے گا۔ اور جھوٹے گواہوں چرب زبان مہنگے وکیلوں پر انحصار کم اور مدت فیصلہ کم ہو کر سستا اور فوری انصاف ممکن بنا یا جا سکے گا۔ (انشاء اللہ)
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com 03465214526