لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کی کرکٹ ٹیم کپتان مصباح الحق اور کوچ وقار یونس کے بڑے حوصلہ افزا بیانات کے ساتھ سری لنکا پہنچی اور ٹیسٹ کا آغاز بھی اچھا کیا لیکن سری لنکا نے اپنی پہلی اننگز میں سنگاکارا کی ڈبل سنچری کی بدولت پاکستان پر 82 رنز کی سبقت حاصل کر لی اور چوتھے روز کا کھیل ختم ہونے پر جب پاکستان اپنی دوسری اننگز میں صرف چار رنز پر ایک وکٹ بھی کھو چکا تھا، تو خطرے کی گھنٹی اسی وقت بج اٹھی تھی۔ تا ہم اس کے علاوہ اور بھی کئی روایتی عوامل ہیں جو ہماری روایتی شکست کا سبب بنے۔
مبصرین کے مطابق ایک سب سے بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بیٹسمینوں نے سری لنکن باولروں خاص کر ہیراتھ کو خود پر حاوی ہونے کا موقع کیوں فراہم کیا جب کہ لنکن بلے بازوں نے پاکستان کے ٹرمپ کارڈ سعید اجمل کو بھی خوب مارا۔ کسی بھی ٹیم کے لیے اس سے زیادہ شرمناک شکست اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ پہلی اننگز میں ساڑھے چار سو کا بھاری سکور کرنے کے بعد دوسری اننگز میں چھ مستند بیٹسمینوں کے ساتھ دو سیشن بھی وکٹ پر گزارنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان کی مدد کو نہ بارش آئی اور نہ ہی بیٹسمینوں کی میچ ڈرا کرنے کی خواہش پوری ہو سکی۔
ایسا دکھائی دیا کہ پاکستانی ٹیم کسی منصوبہ بندی کے بغیر یہ ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔ افتتاحی بلے بازوں کا مسئلہ تو ہمارے لئے نیا نہیں بلکہ کئی عشرے پرانا ہے۔ ایک دو میچوں میں کچھ سکور کر لینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ احمد شہزاد اور خرم منظور ٹیسٹ کے معیار کے بیٹسمین بن گئے۔
کپتان مصباح الحق نے یہ روایتی بیان دے کر کہ پاکستانی بیٹسمین سری لنکن باولروں کے دباو میں آ گئے، اپنی بے بسی ہی ظاہر کی ہے۔ ریویو کب لینا ہے ہماری ٹیم کو ابھی تک اس کی بھی سمجھ نہیں آئی ہے۔ احمد شہزاد نے ایل بی ڈبلیو دیے جانے پر اظہر علی سے مشورہ مانگا تو اس نے ریویو نہ لینے کا کہا۔ اگر وہ ریویو لے لیا جاتا تو فیصلہ احمد شہزاد کے حق میں جاتا۔ اسی طرح سنگاکارا کے خلاف ریویو نہ لے کر اور چوتھے دن کی پہلی ہی گیند پر عبدالرحمان کے ڈراپ کیچ نے انھیں ڈبل سنچری بنانے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔
اس ہزیمت کے بارے میں سب سے اچھا تبصرہ رمیز راجہ کا تھا کہ بارش نے میچ کو برباد نہیں کیا کیونکہ سری لنکا کی ٹیم جیت کی مستحق تھی۔ لیکن اگر ان سب باتوں کو بھلا دیا جائے اور شکست کا سب سے آخری اور اہم سبب دیکھا جائے تووہ سرفراز کا وہ سنگل رن تھا جو انہوں نے ہیراتھ کے اوور کی پہلی گیند پر لے کر اپنے ساتھی بلے باز جنید خان کے آوٹ ہونے کی راہ ہموار کی۔
جنید میچ میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے باولرکی پانچ گیندیں کھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اب کہاں سے آصف اقبال جیسے بلے باز آئیں جو آسٹریلیا میں دنیا کے تیز ترین باولرز کے سامنے ڈٹ گئے اور آخری وکٹ کی اقبال قاسم کے ساتھ شراکت میں اس انداز سے بیٹنگ کی کہ ہر اوور کی آخری یا پانچویں بال پر سنگل لے کے اگلے اوور میں باولر کے سامنے پھر خود آ جاتے۔
آصف نے سنچری کی اور وہ میچ جو آسٹریلیا کی فتح کی طرف جا رہا تھا اس کو وہ بمشکل ڈرا کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ آج کے کھلاڑی اپنے پیشرووں کی شاندار تاریخ سے استفادہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔