دنیا میں اس وقت خطرناک ہتھیاروں کے جمع و استعمال کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ممالک کے علاوہ ترقی یافتہ و ترقی پزیر ممالک بھی اپنے دفاع کے لئے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس وقت دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو خطرناک ہتھیاروں کو جمع کرنا نہیں چاہتا ہو۔ ہر ملک کا بظاہر مقصد اپنی سرحدوں و عوام کا حفاظت ہی ہوتا ہے لیکن خطرناک ہتھیاروں کی خرید و فروخت کو عالمی طاقتوں کو ایک مکروہ دھندہ بھی قرار دیا جاتا ہے جس میں وہ ایسے ممالک کو کشیدہ صورتحال میں مبتلا کردیتے ہیں، جو خانہ جنگی یا عددی لحاظ سے برتری کے زعم میں مبتلا ہونے ملک کو کمزور ممالک پر حاوی کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس خوف میں مبتلا ہونے کے سبب ترقی پزیر ممالک، عالمی قوتوں و مالیاری اداروں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر عوام پر خرچ کئے جانے والے وسائل جنگ میں جھونکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ان جنگی ہتھیاروں میں اس وقت سب سے خطرناک کیمیائی ہتھیارہیں جو انسانوں کے لئے بڑے مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ اقوا م متحدہ کی جانب سے ہر سال 30نومبر کو کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن عالمی سطح پر کیمیائی ہتھیاروں کے خطرناک استعمال سے ہلاک شدگان و تباہی سے بچاؤ کے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔کیمیائی ہتھیار اجلاس ہتھیاروں کے ضابطے کے لیے ایک معاہدہ ہے، جو کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار، ذخیرہ اور استعمال کو غیر قانونی بناتا ہے۔ معاہدے کے مکمل نام کیمیائی ہتھیاروں کے ارتقا، پیداوار، ذخیرہ اور استعمال کی ممانعت پر اور ان کی تباہی پر اجلاس تنظیم برائے ممانعت کیمیائی ہتھیار کے زیر انتظام ہے۔
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے خطے میں جہاں لاکھوں انسانوں کی بے گناہ ہلاکتیں ہوئی ہیں، روایتی جنگوں میں کیمیائی ہتھیاروں کے غیر روایتی استعمال کی وجہ سے خطے میں اس کے مضر اثرات کئی دہائیوں تک قائم رہتے ہیں۔تباہ کن کیمیائی ہتھیاروں کے بہیمانہ استعمال میں امریکا سر فہرست ملک شمار کیا جاتا ہے جس نے جنگ میں کامیابی کے لئے انسانی سوز اذیت ناک طریقہ اختیار کیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کا پہلا استعمال جنگ عظیم اول میں ہوا تھا۔ اس جنگ میں کم و بیش دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔ ہلاکتو ں کی بڑی وجوہات میں جہاں ایک وجہ نئی ایجاد مشین گن تھی جس کی وجہ سے ان گنت انسان مارے گئے تھے، تاہم کیمیائی ہتھیار کے طور پر کیمیائی گیس کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے جنگ میں یکم جولائی 1916کو سومے کے علاقے میں 57ہزاربرطانوی فوجی مارے گئے تھے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے علاوہ اس جنگ میں انسانی تاریخ کی بھی سب سے بڑی ہلاکتیں ہوئیں۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73 ہزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں اور فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔
اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے ”اسپینش فلو” پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔
کیمیائی ہتھیاروں میں سب سے خطرناک ہتھیار ایٹم و ہائیڈروجن بم ہے۔جاپان کے شہر ناگاساکی اور ہیروشیما ہی صرف دنیا کے وہ شہر ہیں جنھیں اب تک ایٹمی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ناگاساکی پر 9 اگست 1945 کو امریکہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بم گرایا گیا تھا جس میں یک دم 27 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس سے دو دن قبل 7 اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا جس میں 78 ہزار اور بعد میں ایٹمی تابکاری سے چار لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔جنگوں میں امریکا کی جانب سے انتہائی ہولناک کیمیائی ہتھیار کے استعمال کی وجہ سے عالمی قوتوں میں ایٹمی ہتھیاروں کو خطرناک سے خطرناک بنانے اور زیادہ سے زیادہ جمع کا رجحان شروع ہوا اور اس کے استعمال کے لئے خطرناک میزائل بنانے کی دوڑ کا بھی آغاز ہوا اور اس وقت دنیا بھر میں ایسے میزائلوں کے بڑے بڑے ذخیرے ہیں جو ایٹم بم سمیت دیگر خطرناک کیمیائی ہتھیار کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کیمیائی ہتھیاروں کوجنگی ساز و سامان کا حصہ بنانا خطرناک تصور کیا جاتا ہے، امریکا جو خود دنیا کے خطرناک ترین ہتھیاروں کے ساتھ خطرناک کیمیائی جنگی سازو سامان رکھتا ہے۔ امریکا خود کیمیائی ہتھیار وں کا استعمال کرچکا ہے، لیکن اپنے مخصوص مفادات کے تحت عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو بنیاد پر حملہ کیا گیا اور پورے عراق کو تہہ بالا کردیا گیا۔ لیکن عراق سے ایک بھی کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ جس پر برطانیہ نے اعتراف کیا کہ امریکی سی آئی اے نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط اطلاع دی تھی۔تاہم اس وقت عراق امریکی حملے کے بعد سے مسلسل تباہی و افراتفری کا شکار ہے۔ عراق میں اس وقت بدترین متشدد مظاہرے ہو رہے ہیں اور عوام بے روزگاری، بد امنی اور معاشی بدترین صورتحال کے سبب سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر عراق پر امریکا قبضہ ہے۔اس وقت بھی کئی ممالک میں عالمی طاقتیں و دہشت گرد تنظیمیں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کررہی ہیں۔جس سے انتہائی ہولناک ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ 21اگست 2013ء کو مشرقی غوطہ میں شہریوں پرمیزائل فائر کئے گئے جس سے سارین گیس کا اخراج ہوا۔3600 سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔1500سے زائد ہلاک ہوئے جن میں 426کے قریب بچے بھی شامل تھے۔ان بچوں کی اکثریت فضا میں گھٹن کی وجہ سے سانس نہ لے سکی اور نتیجتاََوہاں پہنچ گئی جہاں جنگ وجدل کا نام ونشان نہیں۔اقوام متحدہ کی 2013ء میں منظور کی گئی قرار داد کے بعد سے شام میں 139کیمیائی حملے کئے جاچکے ہیں۔
کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے کہا کہ مقبوضہ جموں کشمیرمیں بھارتی سرکار نے تو کشمیریوں کو کچھ سمجھا ہی نہیں ہے، مقبوضہ وادی میں طرح طرح کے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی اقوام عالم کو آگاہ کیا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج نے باندی پورہ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ڈاکٹرمحمد فیصل نے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے،۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ 2017 میں بھی سامنے آیا تھا اور اس وقت کے ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بین الاقوامی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیقات کے مطالبے پر بھارت نے ابھی تک کوئی تردید بھی جاری نہیں کی۔بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو پاکستان سے محبت کرنے کی پاداش میں بہیمانہ طریقے سے مسلم نسل کشی کی پالیسی و اقدامات پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر باقاعدہ بھارتی قابض افواج پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا سنگین الزام عاید کیا۔ پاکستان کی وزرات خارجہ کی جانب سے قابض بھارتی افواج پر کیمیائی ہتھیاروں کا نہتے کشمیری مسلمانوں پر استعمال کرنے کا الزام انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔جس کی تحقیقات کے لئے عالمی برادری سے مطالبہ بھی کیا ہے۔ 27 اکتوبر 2018 کو حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی نے انکشاف کیا تھاکہ چند دن قبل بانڈی پورہ میں بھارتی فوج نے ایک مرتبہ پھر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیاجس سے شہید ہونے والوں کی لاشیں قابل شناخت نہیں رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسی ظالمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جو کہ بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔حریت چیئرمین نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وحشیانہ کارروائی پراقوام متحدہ کے جنگی ٹربیونل کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اپنی افواج کو جدید مہلک ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے ریاستی عوام کے خلاف ایک باضابطہ جنگ چھیڑ رکھی ہے جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے علاوہ ڈرون، پیلٹ گن، مرچی گیس وغیرہ جیسے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے نہتے عوام اور بالخصوص نوجوان نسل کو ناکارہ،اپاہج، اندھا اور معذور بنائے جانے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔
ٹرجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں انکشاف کیا تھا کہ ہمانو اور کاکپورہ میں بھارتی فورسز کے تباہ کیے گئے گھروں سے ملنے والی کشمیری نوجوانوں کی لاشیں اتنی بری طرح جلی ہوئی تھیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی تھی۔2018میں باندی پورہ میں دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے پر پاکستان نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو جنگی جنون سے روکے۔2017اور2018میں پاکستان نے عالمی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کہ اگر بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ہوجاتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین اور کیمیکل ہتھیاروں کے کنونشن کی خلاف ورزی ہوگی۔ خیال رہے کہ قابض فوج کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شروعات بھارتی وزیر اعظم کے دورہ اسرائیل کے بعد ہوئی۔ 2017میں پلوامہ کے علاقے بہمنو میں بھارتی فوج کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے تباہ کیے گئے تھے۔ 4 مکانوں کے ملبے سے 3 کشمیری نوجوانوں جہانگیر کھانڈے، کفایت احمد اور فیصل احمد کی جھلسی ہوئی لاشیں ملی تھی، نوجوانوں کی میتیں اس حد تک جھلس گئی تھیں کہ وہ ناقابل شناخت ہو چکی تھیں۔
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے22نومبر تا 28نومبر اہم کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں ایک بار پھر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال، ذخیرے، توسیع اور پیداوار کی روک تھام کے کنونشن کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے متعلقہ کنونشن کے مطابق انھیں ختم کرنے کی ضرورت پر تاکید پر ضرور دیا گیا۔ سلامتی کونسل کے اراکین کے بیان میں عام تباہی پھیلانے والے تمام ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن پر عمل درآمد کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے آیا ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور اس کی منتقلی عالمی امن و صلح کے لئے ایک خطرہ ہے۔قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ میں ایٹمی اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے قیام کے موضوع پر کانفرنس میں امریکہ اور صیہونی حکومت نے اس میں شرکت نہیں کی۔یہ عالمی قوتوں پر ایک نمایاں سوالیہ نشان بھی ہے کہ ایک جانب سلامتی کونسل اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی وجہ سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہیں،لیکن پہل کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کیمیائی ہتھیار تلف نہیں کرتے حالاں کہ غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال پر انہیں خود پر بھی پابندیاں عاید کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا، یہ طبقاتی امتیاز ہے کہ عالمی قوتیں خود تو تباہ ہتھیار رکھ کر دنیا دیگر ممالک کو اپنے دباؤ میں رکھیں۔
مشرق وسطی میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بے دریغ کیا جاتا رہا ہے۔ادلیب سے منسلک موضع خان شیخون میں کیمیائی حملے میں بچوں کی اکثریت سمیت ایک سو افراد لقمہ اجل جبکہ 500 سے زائد زہریلی گیسوں سے متاثر ہوئے تھے۔ 26 ستمبر 2019 کو امریکا نے اس امر کی تصدیق کی کہ شامی صدر بشارالاسد کی فورسز نے مئی میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کے مطابق ان کیمیائی حملوں کا جواب دیا جائے گا۔انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:”امریکا اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسد رجیم نے کلورین کو کیمیائی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔اس حملے کو ایسے ہی نہیں جانے دیا جائے گا۔“امریکا نے قبل ازیں یہ کہا تھا کہ اس کو مئی میں صوبہ ادلب میں شامی فوج کی کارروائی کے دوران میں کیمیائی ہتھیاراستعمال کیے جانے شُبہ ہے اور وہ اس ضمن میں مزید معلومات حاصل کررہا ہے۔
امریکا کی ریسرچ فاؤنڈیشن ‘ہیریٹیج’ کی ایک رپورٹ میں سابق معاون وزیر دفاع پیٹر بروکس کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران ادویات اور نشہ آور مواد کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی فوج کے زیر نگرانی قائم ایک اسلحہ ساز مرکز میں افیون پر مشتمل مواد کو کیمیائی اسلحہ سازی کے لیے استعمال کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ یہ ہتھیار انسانوں کی جسمانی معذوری کا موجب بن سکتے ہیں۔پیٹر بروکس کی تیارکردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ افیونی مواد معذوری، اپاہج پن اور لوگوں کو قتل کرنے کے استعمال کیا جا سکتا ہے اسے کھانے والے مختلف عوارض کا شکار ہونے کے ساتھ یہ جسم کے اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔جرمنی کے باوفاریا ریاست میں قائم انٹیلی جنس دفتر کی رپورٹ کے مطابق جرمن باویرئین اسٹیٹ آفس کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ایران خطرات’ میں گھرا ملک ہے۔ ایران ان خطرات کے تدارک کے لیے اپنے روایتی اور اسلحہ کو ترقی دینے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہیکہ ایران جس نوعیت کے تباہ کن ہتھیار تیار کر رہا ہیان میں ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار شامل ہیں۔
کیمیائی ہتھیاروں کے بہیمانہ استعمال کی ان گنت مثالیں موجودہیں۔ جس کے مطابق عالمی قوانین کے مسلسل خلاف ورزیاں عالمی طاقتوں کی جانب سے بھی کی جارہی ہیں، اسی طرح خانہ جنگیوں کے شکار ممالک بھی مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے سرپرست عالمی طاقتوں کے سبب قوانین پر عمل درآمد ممکن نہیں پاتے۔ اس کی مثال شام پر امریکی حملہ ہے جس میں کیمیائی ہتھیار بنانے والی مبینہ فیکٹری پر حملہ کیا گیا لیکن اس سے قبل ہی روس کی جانب سے دی گئی اطلاع ملنے پر بمباری کے باوجودبڑا نقصان نہیں ہوسکا۔ اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کو حقیقی معنوں میں دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں کو پاک کرنا ہے تو صرف مشرق وسطی ہی نہیں، انہیں بھی اپنے کیمیکل پلانٹ میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کو ختم کرنا ہوگا۔ طاقت کے زور پر کمزور ممالک پر اپنا دباؤ بڑھانے کے لئے خطرناک ہتھیاروں کو بنانے کی روش عالمی امن کے لئے خطرناک ہے۔ کیونکہ دیکھا جاچکا ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اپنے مخالفین پر کیا، اگر یہ صورتحال اسی طرح رہی تو دنیا سے خطرناک ہتھیاروں سمیت کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔
گو کہ اس وقت کے دنیا کے بیشتر ممالک امتناع کیمیائی ہتھیار (او پی سی ڈبلیو)کے عالمی معاہدے پر دستخط کرچکی ہے لیکن اس پر یقینی عمل درآمد میں خود سلامتی کونسل سے وابستہ ممالک بھی حائل ہیں۔ دنیا کو انسانیت کا درس دینے والے امریکا نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک عرصے تک اس حقیقت کو قبول کرنے سے احتراز کرنے کے بعد پینٹا گون نے اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ اس نے فلوجہ کے خلاف اپنی جنگ میں سفید فاسفورس کا استعمال کیا تھا ل لیفٹیننٹ کرنل بیری ونیبل کے مطابق عام طور پر دشمنوں کی کمین گاہوں کا پتا لگانے کے لیے فضا میں روشنی کرنے کے مقصد سے سفید فاسفورس کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن فلوجہ میں کچھ موقعوں پر دشمنوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکالنے ے لیے بھی اس مادے کا استعمال کیا گیا۔جب عالمی طاقتیں خود عالمی قوانین کا احترام نہیں کریں گی اور ”امتناع کیمیائی ہتھیار “کے معاہدے پر عمل نہیں کرے گی تو دنیا میں کیمیائی ہتھیاروں کے خطرناک استعمال سے خطرات موجود رہیں گے۔ عالمی دن کے اس موقع پر اقوام عالم کو ”امتناع کیمیائی ہتھیار“ پر سنجیدگی اپنانے کی ضرورت ناگزیر ہے۔کیمیائی ہتھیاروں کی وجہ سے انسانیت کو خطرات لاحق ہیں، نوع انسانی اس کے مضر اثرات سے کئی دہائیوں تک نجات حاصل نہیں کرپاتی۔ ایٹم بم کے استعمال سے لے کر آج تک بے گناہ انسانوں و ماحولیات کو کیمیائی ہتھیاروں کے مختلف طریقوں سے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ عالمی برداری کو غیر جانب دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید انسان و دیگر ذی حیات لقمہ اجل نہ بن سکیں۔