عرضِ پاک میں جب بھی الیکشن کا میلہ لگنے والا ہوتا ہے تو میری دائیں آنکھ (اور کبھی کبھی بائیں آنکھ بھی) پھڑکنے لگتی ہے اور میں جگر تھام کر اس فکر میں بیٹھ جاتا ہوں کہ بس اب ملک بھر کے پھڑکتے ہوئے سیاستدان ایک جگہ جمع ہو جائیں گے، الیکشن تک سر کے اوپر سے گزر جانے والی باتیں کریں گے اور پھر کسی دن لنچ سے پہلے کوئی نہ کوئی سیاسی مشینری سے ایسا بیان داغ دیا جائے گا جس کی خبر دیتے دیتے ڈنر کا وقت آنے تک نیوز چینلوں کے اینکر اپنے گلوں اور ناظرین کے کانوں میں خراشیں ڈال چکے ہوں گے اور پینل ڈسکشن میں شامل ہونے والے احباب اور ان کی آستینیں بحث کرتے کرتے ڈھیلی پڑ چکی ہونگی۔
پھر اس سے پہلے کہ مجھ جیسا ایک عام آدمی اس متنازعہ بیان پر اپنی کوئی رائے قائم کر پائے موصوف کا تردیدی بیان آجائے گا کہ اوّل تو وہ بیان میں نے دیا ہی نہیں اور اگر دیا بھی ہے تو میرا مطلب ویسا نہیں تھا بلکہ میڈیا نے میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور اگر پھر بھی ایسا نہیں ہے تو موصوف یہ کہنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھیں گے کہ میرے بیان کا غلط مطلب نکال لیا گیا ہے ۔ اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ میرے سیاسی دشمنوں کی سازش ہو سکتی ہے۔ اب بھاڑ میں جائے عام آدمی اور اس کی رائے! یہ ہے ہمارے یہاں کی سیاست اور شطرنجی سیاست کی بساط۔
میلے سے یاد آیا کہ میلے تو ملک کے طول و عرض میں اور بھی لگتے رہتے ہیں،جیسے مویشیوں کے بھی بڑے بڑے میلے سیزن کے حساب سے لگتے اور سجتے رہتے ہیں مگر وہاں بھی ایک ڈسپلین دیکھنے میں آتا ہے اور مجال ہے جو آج تک کسی مویشی میلے میں کوئی جھگڑا کھڑا ہوا ہو یا کسی مویشی نے کوئی غلط سلط بیان جاری کیا ہو۔ مویشی میلے میں خدانخواستہ کوئی اکّا دُکّا جھگڑا ہوتا بھی ہے تو صرف انسانوں کے درمیان جو کئی بار مویشی کے مول تول پر آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں اور مویشی اس دوران اطمینان سے جگالی کرتے ہوئے ورطِ حیرت سے سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں کس بات پر یہ لوگ اتنی مارا ماری کر رہے ہیں۔ مویشیوں کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ صرف جگالی میں یقین رکھتے ہیں، بحث برائے بحث میں نہیں۔
Pakistani Crowd
سیاست گردانہ سرگرمیوں میں ہر طرف اچھے خاصے لوگوں کا ہجوم دیکھنے میں آتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی بلکہ اکثر و بیشتر ان میں ایسے نشیب و فراز بھی آتے ہیں کہ ایک ہجوم اقتدار میں تو دوسرا حزبِ اقتدار میںرہتا ہے۔ اور باقی بچے پنچھیوں کا تو مت ہی پوچھیئے کیونکہ باقی ماندہ اپنی اُڑان ہی بھول جاتے ہیں اور صرف افرا تفری کی سیاست، جلائو گھیرائو کی پینگیں، پبلک پراپرٹی کی توڑ پھوڑ کی امنگیں لئے میدانِ کارزار میں نبرد آزما رہتے ہیں تاآنکہ دوبارہ الیکشن کا مقررہ وقت آجائے۔
یہاں عوام کو ضرور داد دیا جا سکتا ہے کہ وہ بیچارے نہ تو حکومت میں ہوتے ہیں اور نہ ہی حزبِ اختلاف میں مگر پھر بھی پانچ سالوں تک امن و امان، سکون، بیروزگاری، ہنگامہ آرائی، لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی، گیس کی ناپیدگی، ہڑتالیں، کاروبار کی بندشیں بڑے کھلے ذہن کے ساتھ بھگتاتے رہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ روزی روٹی کی فکر میں بھی سرگرداں رہتے ہیں۔ ویلڈن مائی ڈیئر عوام! آپ سب کا جِگرا ہے جو یہ سب کچھ جھیلتے ہوئے بھی زبان پر اُف کے علاوہ کوئی اور حرف نہیں لاتے۔پاپولر میرٹھی صاحب کے اس شعر کو بھی مضمون کا حصہ بنانا چاہوں گا کیونکہ یہ شعر عوام کی ترجمانی میں پیش پیش لگتا ہے۔ فرض کیوں کر ادا کرے کوئی کیا وفا بے وفا کرے کوئی یہ کسی حال میں نہیں ممکن عوامی دُکھ کی دوا کرے کوئی جو نکات اس مضمون میں اٹھائے گئے ہیں یا آگے اٹھائے جا سکتے ہیں اس پر غور وخوض کی اشد ضرورت ہے۔ ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے بھی ہم سب کو بہرمندرہتے ہوئے راقم سمیت تمام علما و فضلا ، لیڈرانِ قوم بھی پاکستان کو ایک حقیقی ، جمہوری ملک بنانے کا اعلان نہ کریں بلکہ کر کے دکھائیں۔ پاکستان آج کس دور سے گزر رہا ہے کہ ہر دشمن کی نظر ہم پر اور ہمارے ملک پر ہی جمی ہوئی ہے۔ جس کو جیسا موقع مل رہا ہے وہ ویسے ہی وار کر رہا ہے اور ان تمام معاملات میں ہم سب آٹے میں گھن کی طرح پِس رہے ہیں اور پِستے چلے جا رہے ہیں۔
ایسے موقعے پر لیڈرانِ وطن و قوم کو اپنی مصروفیات میں سے خالص ایمانداری اور خلوص والا وقت نکال کر اپنے گرد و نواح کے لوگوں کو عوامی زبان میں اپنی بات چیت اور کردار کے بارے میں واضح آگاہی دیں اور باقاعدہ اپنے آگے کا پروگرام بھی واضح کریں اور وہ بھی صاف نیت، خلوصِ دل سے تاکہ عوام جو آپ سب کی طرف سے بالکل مایوس ہو چکی ہے ان میں کم از کم دوبارہ ووٹ ڈالنے کی ہمت تو جُڑ سکے۔جو نفاق ڈالنے والی قوتیں ہم سب کے بیچ موجود ہیں اور روزآنہ کی بنیاد پر ملک میں کہیں نہ کہیں قتل و غارت کے ذریعے لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں۔
pakistan
انہیں بھی اخوت، بھائی چارگی، رواداری ، حقوقِ انسانی، انسانی اقدار، امن و امان ، روزگار کی فراہمی (اور اس جیسے کتنے ہی اژدھے ہیں جن سے عوام نبرد آزما ہیں) کا درس دینے کی کوشش ضرور کرنی چاہیئے تاکہ ہمارا ملک بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے۔کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اب وقت آگیا ہے شطرنجی سیاست کے خاتمے کا، لوٹا کریسی کے خاتمے کا جو ببانگِ دہل اس پارٹی سے اُس پارٹی کی طرف محوِ پرواز رہتے ہیں۔
ایک دوسرے کے ساتھ بجائے گٹھ جوڑ کرنے کے مخلص طریقے سے ملک کے بارے میں سوچنے کا، اہم عوامی ایشوز کو الیکشن میں فرنٹ ڈرائیو دیں اور کامیاب ہوکر وطن اور عوام کی خدمت فراخی سے کرنے کا۔وقت آن پہنچا ہے کہ نفرت کو ختم کیا جائے اور محبت کو ہوا دکھائی جائے تاکہ امن و امان جیسا بنیادی مسئلہ فوری حل ہو۔ گرمیاں آنے والی ہیں ایسے میں ابھی سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی سعی کرنی چاہیئے اور یہ سارے معاملات تبھی حل ہو سکتے ہیں جب ہم سب میں اتفاق و اتحاد ہوگا، جس کی کمی عوام ہر وقت محسوس کر رہی ہے۔
اسلامی تعلیمات سے آگاہی رکھنے والے احباب تو اوپر درج ہوئے فقرے کے معنی سے بخوبی واقف ہونگے ۔ میں یہاں پر یہی کہوں گا کہ صرف محمد اخلاق، محسن علی، شفاعت حسین نام رکھنے سے کوئی شخص مذہبِ اسلام کی تعلیمات کا مظہر نہیں ہوسکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو انسان انسانوں کو جس قدر نفع پہنچاتا ہے، اللہ رب العزت اس کو زمین میں اس درجہ استعداد عطا کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں۔ ہم جو مسلمان اور محبِ وطن ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم نے اپنی قوم، اپنے ملک، اپنے ہم وطنوں کی فلاح کے لئے کون کون سے کام اب تک کئے ہیں۔
Pakistan Poverty
جس سے عوام کا بھلا ہوا ہو۔ کیا ہم نے انہیں تین وقت کی روٹی بہم پہنچانے کے لئے روزگار مہیا کر دیا ہے۔ کیا ہم وطنوں کے لئے بنیادی مفت علاج فراہم کر دیا ہے۔ کیا ان کے رہنے کے لئے کوئی رہائشی اسکیم متعارف کروائی اور اگر کروائی ہے تو کیا ایمانداری سے ایسے لوگوں کو رہائش ملی ہے جن کے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اور اپنے وطن میں مکمل طور پر شامل کرکے ہم وطنوں میں اس کی ترویج ہی ہمیں اصل کامیابی اور پُر سکون زندگی کی طرف لے جا سکتی ہے اور تبھی جاکر ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم ہی ہیں وطن دوست۔ ہم ہی ہیں عوام دوست۔