تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری یکم مئی 1886 کو شکاگو کے مزدوروں کو خون میں نہلا ڈالا گیا اور ان کے خون سے سفید کپڑا سرخ رنگین ہو کر مزدوروں کا جھنڈا بنا وہیں سے سرخ ہے سرخ ہے کا نعرہ وجود میں آگیا۔بیشتر ترقی پذیر ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی مزدور تحریک کی قیادت بہت عرصہ تک مفاد پرستوں کے ہاتھ میں رہی بھٹو مرحوم نے ایوب خاں کے وزیر خارجہ کے طور پر مستعفی ہو کر آمریت کے خلاف تحریک شرع کر ڈالی کچھ عرصہ بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ترقی پسندانہ سوچوں کے تحت اسلامی سوشلزم کے نعرے کی گونج سنائی دی۔غیر منظم مزدوروں نے اسے اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہوئے جوق در جوق پی پی میں شمولیت اختیارکی ۔کٹر سوشلسٹ پارٹی سے دو ررہے کہ انھیں پتہ تھا کہ جاگیردار ابن جاگیردارجو کچھ کہہ رہا ہے وہ ایک دھوکہ محض ہے مزدوروں کسانوں اور محنت کشوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف محیر العقول نعرے بھی ایجاد ہوئے۔
سوشلزم آوے ہی آوے کی گو نج سن کر مزدور اس کے ارد گرداکٹھے ہوتے چلے گئے نوجوان نسل نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا جونہی1970میں اس کی نوزائیدہ جماعت نے مغربی پاکستان میں انتخاب جیتا اور ملک دو لخت ہونے کے نتیجے میں اقتدار بھٹوکی جھولی میں آگرا تو انہوں نے مزدوروں کسانوں اور محنت کش طبقات کے مسائل سے چشم پوشی اختیار کرلی اسی کے دور میں بنگلہ دیش نامنظور،ختم نبوت،یو ڈی ایف کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریکیں چلیںاسلامی کانفرنس کالاہور میں انعقا د ہوا،قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
نیب اور جے یو آئی کی حکومتوں کو سرحد اور بلو چستان میں بر طرف کیا گیا۔نیپ پر پابندی لگی اور ولی خان کے ساتھ سابقہ صدر آصف علی زرداری کے والدحاکم علی زرداری جو کہ نیشنل عوامی پارٹی سندھ کے صدر تھے جیلوں میںمقید رہے علماء اور سیا سی راہنما قتل ہوئے ۔مولانا شمس الدین ڈاکٹر نذیراحمد،موجودہ وزیر ریلوے کے والد خواجہ رفیق شہادت پا گئے۔نصف درجن سے زائد طلباء اورکئی مزدور راہنمائوں کو بھی گو لیوں سے بھون ڈالا گیا۔مگر ہر حالت میں مزدوروں کی جدو جہد جاری رہی۔مزدور راہنمائوں کو تولوہا بنانے والی فائونڈریز ملکیہ شریف خاندان کی بھٹیوں تک میں جھونک ڈالا گیا تاکہ منتخب مزدور راہنما ان کی فیکٹریوں میںمزدوروں کے لیے کوئی مفادات حاصل نہ کر سکیں غرضیکہ ہر صنعت کارسرمایہ دار نے مزودوروں کو دبائے رکھا اوریہ وطیرہ آج تک پوری دنیا میں جاری ہے مزدوروں کو اکٹھے ایک جھنڈے تلے کرنے والے مزدور راہنما بھیکردار کے اس معیار پر پورا نہیں اترتے جو واقعی انقلاب برپا کرسکیں ۔الیکشن سے قبل نو سیاسی جماعتوں نے پاکستانی قومی اتحاد بنایا۔1977کے انتخابات میں خوب ہل اور تلوار کے نشانات میں مقابلہ ہوا۔ مگر مزدوروں کی کسی سیاسی جماعت یا اتحاد نے سر پرستی نہ کی ان کے مسائل جوں کے توں رہے۔پورے ملک کے جاگیردار اور وڈیرے پی پی میں گھس چکے تھے۔حتیٰ کے اولیاء کی سرزمین ملتان کے تمام پیران عظام قریشی ،گیلانی جن کے مریدین ان کے پائوں چومتے تھے وہ بھی اقتدار حاصل کرنے کی خواہشوں کے تحت بھٹو کے آگے عملاً سجدہ ریز ہو گئے ڈیرہ غازیخان کے لغاری ،مزاری ،کھوسے بہاولپور کے عباسی اوردولتانے کھگے جھنگ کے سیدغرضیکہ جاگیرداروںکا جھرمٹ اکٹھا ہو گیا اور پارٹی کے مزدوروں اورانکے راہنمائوں مختار رانا، افتخارتاری،معراج محمدخان ،جے اے رحیم جیسے اہم لیڈروں پر تشدد ہوئے۔
انہیں جیلوں شاہی قلعہ اور دلائی کیمپوں میں رکھا گیا۔پارٹی پر جاگیر دار قابض ہو چکے تھے اور وہی اس کی پھانسی کے ذمہ دار بنے۔مزدوروں کی پی پی پی نے کمر توڑ ڈالی اور یوم مئی کے منانے کی دھوم دھام آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی کہ مزدوروں کی تحریک میں جاگیر داروں کے چنگل میں آکر دم خم نہ رہا۔ضیاء الحقی مارشل لاء لگا تو تمام منتخب ادارے بمعہ مزدور طلباء یونینیں ختم ہو کر رہ گئیں۔اب تو سود در سود کے علمبردار صنعتکاروں نے سیاسی میدان پر قبضہ جمالیا ہے تمام جاگیردار بھی ہر طرف مقتدر طبقات میں شامل ہیں تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں جاگیردار و سرمایہ داروں کا مکمل قبضہ ہے کہ ہر پارٹی کا لیڈر سرمایہ خرچ کرنے والوں کے چنگل سے نکل نہیں سکتا اہم عہدے اور تمام اسمبلی کی سیٹیںانھی کے قبضہ میں ہیں ۔جو نہ تو مزدوروںکے مسائل کے واقف ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ہمدردی رکھتے ہیں۔اس طرح مزدوروں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اب تو حالات یہ ہیں کہ سرمایہ پرست انتخابی امیدوار بھاری رقوم بانٹ کر ووٹ خریدنا شروع ہوگئے ہیں انتخاب میں جتنا مال خرچ کرتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ رقوم بنکو ں سے قرضے اور ان کی معافیاںکروا کر نئی ملیں لگانے اور ڈھیروں سرمایہ بیرون ممالک بنکوں میں دفنا کرکمالیتے ہیں۔مزدور دشمن مقتدر افراد نے ایسے قوانین گھڑ ڈالے ہیں کہ کتنا ہی احتجاج کرلیں پسے ہوئے طبقات کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔
آئین کی رو سے جو بنیادی ضرویات زندگی ہر فرد کو مملکت نے لازماً مہیاکرناہیں ان کو در خور اعتناہی نہیں سمجھا جاتاادھر صنعتکار میڈیکل سہولتیں تک بھی مزدروں کو مہیا نہیں کرتے حالت بہ ایں جا رسید کہ سرکاری ملازم بھی کم تنخواہ کی وجہ سے اگر رشوت نہ لیں تو ان کا ماہانہ خرچہ چل ہی نہیں سکتا۔آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مزدوروں کی یونینیں بحال ہوںانھیں ملوں کے منافع میں تنخواہ کے علاوہ دس فیصد کا حصہ دار بنایا جائے اور جو صنعتیں حکمرانوں سے نہیں چل رہیںیا ڈوب رہی ہیں توانھیں پرائیویٹائز کرنے کی بجائے منتخب مزدور یونینوں کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ڈوبتی صنعتیں تیرنے لگیں گی پیداوار میںا ضافہ ہو گا ملوں کا نظام بھی احسن طریق پر چل پڑے گا ۔یوم مئی پر مزدور جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے مطالبات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں مگر کبھی کسی حکمران کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی درا صل انتخابی نظام تبدیل کیے بغیر مزدوروں کے مسائل قطعاً حل نہیں ہوسکتے۔متناسب نمائندگی بلحاظ آبادی و تعداد طبقات کے ذریعے مزدوروں کسانوں محنت کشوں انجنئیر ،ڈاکٹر،دوکاندار ،ھاریوں،صحافیوں،وکلاء و دیگر طبقات کے لیے سیٹیں مختص کی جائیںتو 90 فیصد محنت کش طبقات کے لوگ اسمبلیوں میںپہنچ جائیں گے۔ وہ خود بخود اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ ھ نکالیں گے کہ جس تن لاگے اس تن جانے کے مصداق مزدور ہی مزدور کا اور کسان ہی کسان کا مسئلہ سمجھ سکتا ہے آئندہ انتخابات میں تمام انتخابی امیدواروں کے ہمہ قسم اخراجات حکومت خود اپنے ذمہ لے تو اللہ اکبر اللہ اکبر اور رسالت مآب ۖ کے نعرے لگاتے ہوئے لو گ تحریک کی صورت نکلیں گے اور اسلامی قدروں کے مطابق مزدور کسان محنت کش اور غریب عوام کا راج قائم ہو جائے گا۔