تحریر : اختر سردار چودھری پاکستان میں تو کیا شائد پوری دنیا میں اس طرح 20 ماہ سے مسلسل جاری رہنے والایہ منفرد ترین واقع ہے ۔۔۔موٹرسائیکل سوار جنونی چھلاوہ صرف خواتین کو ہی نشانہ بناتا ہے خواتین کو کسی تیز دار آلے کے ساتھ زخمی کرنے کے بعد اچانک غائب ہوجاتا ہے۔ اب تک 65 سے زائد خواتین کو چھری مار جنونی حملہ کر کے شدید زخمی کر چکا ہے ۔۔۔حملوں میں اکثر خواتین کی ٹانگوں، پیٹ ، کمر ،بازو،کمر کے نیچے کولہے پر وار کیے گئے ۔زیاد تر خواتین کو شام کے وقت نشانہ بنایا گیا ۔ وہ 6 اکتو بر2013 کا ایک عام سا دن تھا سورج مغرب میں غروب ہو رہا تھا ۔جب چیچہ وطنی میں پہلی مرتبہ ایسا واقعہ ہوا تو اسے معمولی سمجھا گیا، یہ سوچا گیا،کہ کسی موٹر سائیکل سوار نوجوان نے کسی ذاتی عناد کی وجہ سے ایسا کیا ہے کہ ایک راہ چلتی نوجوان لڑکی کو اس کی کمر پر چھرا مار کر زخمی کیا ہے۔ چند دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ رونما ہوا کہ شام ڈھلے ایک موٹر سائیکل سوار نے ایک نوجوان لڑکی کو چھرا مار کر زخمی کر دیا اور خود چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔
لڑکی کو اتنا زخمی کیا گیا کہ اسے ہسپتال داخل کروانا پڑا ۔پھر یہ معمول بن گیا کہ ہر روز خواتین کوخنجر یا کسی تیز دھار آلے کے ساتھ زخمی کر دیا جاتا ۔ پولیس نے زخمی خواتین کے بیانات کی روشنی میں آئیڈینٹی کاسٹ کے ماہرین کی مدد سے ملزم کے خاکے تیار کروائے ان ماہرین میں سعودی ماہرین بھی شامل تھے ۔ خاکوں سے ملتے جلتے چند نوجوانوں کو شبہ میں شامل تفتیش بھی کیا گیا لیکن اصل ملزم 20 خواتین کو یکے بعد دیگرے زخمی کرنے کے بعد انڈر گراونڈ ہو چکا تھا۔چند دن انتظامیہ نے ان واقعات کا نوٹس لیا اس دوران چند خواتین نے ہمت کر کے پولیس میں رپورٹ بھی درج کروائی۔چیچہ وطنی شہر کے نوجوان بھی پرسرار حملہ آور پر نظر رکھنے لگے لیکن کافی دن گزر گئے اور کوئی ایسی کاروائی نہیں ہوئی۔زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی تھی کہ چند ماہ تک روپوش رہنے کے بعد چھرا مار جنونی شخص دوبا رہ حرکت میں آ یا اور ایک شام اس نے دو الگ الگ مقام پر راہ چلتی لڑکیوں کو تیز دھار آلے سے وار کر کے زخمی کر دیا ۔شروع شروع میں یہ سب کاروائیاں کسی ایک ہی جنونی شخص کا کام سمجھی جاتی تھیں ۔ غالبا 25 واں واقعہ تھا جب ایک ماں بیٹی بازار سے خریداری کر کے گھر کو واپس جا رہیں تھیں
ابھی وہ گھر سے کافی دور تھیں کہ دو موٹر سائیکل سوار اچانک ان کے پیچھے سے آئے موٹر سائیکلوں کی آواز سن کر ماں بیٹی دونوں گلی کی ایک نکڑ پر ہو گئیں دونوں موٹر سائیکل سوار میں سے ایک موٹر سائیکل سوار نے ان کے قریب آ کر موٹر سائیکل یک دم روکا اور لڑکی کے کولہے پر وار کر دیا جس سے وہ خون میں لت پت ہوگئی موٹر سائیکل سوار فرار ہو گئے۔اس واقعہ کے بعد ان کاروائیوں میں ملوث جنونی چھلاوے کو چھرا مار گروپ کا نام دے دیا گیا ۔کیا خبر صرف یہ ہی ایک واقعہ اصل مجرم نے نہ کیا ہوا بلکہ چھرا مار جنونی کی دہشت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی اور نے کیا ہو ۔کیونکہ اس ایک واقعہ کے علاوہ کسی اور واقعہ میں دو یا اس سے زیادہ افراد حملہ آور نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد والا واقعہ بیگم شہناز روڈ پر پیش آیا اس واقعہ کی خاص بات یہ ہے کہ مجرم فرار ہوتے ہوئے تیز رفتاری کے باعث سڑک پر پھسل گیا لیکن وہ فوری طور پر سنبھل گیا اور گری ہوئی موٹر سائیکل دوبارہ اٹھا کر موقع سے فرار ہوگیا ۔مضروبہ کو سول ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اسے طبی امداد دی گئی ۔یہ واقعہ ایک بڑے آفیسر کی بیٹی کے ساتھ پیش آیا تھا اس لیے چھرا مار گروپ کی تلاش کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں ،ملزم خاکے دوبارہ شائع کیے گئے نوجوان شہر کی بیٹیوں کی حفاظت کے ایک بار پھر متحرک ہوئے ہوا یہ کہ اس واقع کے بعد چار ماہ خاموشی سے گزر گئے۔
Acid Attack
زندگی اتنی تیز رفتار ہے کہ لوگ چند دن پہلے کے واقعات و حادثات کو بھول جاتے ہیں لیکن یہاں تو چار ماہ گزر گئے چیچہ وطنی کے باسی اسے بھول بھال گئے لیکن جنونی گروپ نہیں بھولا شروع میں اکا دکا واقعات ہوئے جن میں نوجوان لڑکیاں اول یہ کہ زیادہ زخمی نہ ہوئیں دوم یہ کہ ان لڑکیوں کی جانب سے کوئی رپورٹ نہ لکھوائی گئی لیکن پھر چھرا مار گروپ سے 22سالہ نوجوان لڑکی کو چھرا مار کر زخمی کر دیا جس کو رائے علی نواز فاؤنڈیشن ہسپتال میں طبی امداد کے لئے لایا گیا ،اس لڑکی کی کمر میں چھرا مار کر زخمی کیا گیا تھا مضروب خا تو ن کو زخم پر 28ٹانکے لگائے گئے تھے پولیس تھانہ سٹی واردات کے بعد ہسپتال میں پہنچی۔اب ایک بار پھر اس جنونی چھرامار گروپ جسے نفسیاتی مریض بھی کہا جانے لگا تھا کی تلاش زور شور سے شروع ہوئی ۔اب اسے چھلاوہ بھی کہا جانے لگا کیونکہ وہ حملہ کر کے چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا تھا۔
چھرا مار گروپ کے جنونی شخص نے کالونی میں دومختلف مقامات پر راہ چلتی ہوئی دو لڑکیوں پر تیز دھار آلے سے وار کر دیا جس کے نتیجہ میں وہ شدید زخمی ہو گئیں جنہیں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ جنونی شخص لڑکیوں کو زخمی کر کے چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔ایسی خبریں اخبار کی زینت بننے لگیں ۔دختران چیچہ وطنی زخمی ہوتی رہیں ،ایف آئی آر درج ہوتی رہیں اب تک سفاک مجرم کے خلاف غالبا 20 کے قریب ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں لیکن اصل مجرم گرفتار نہ ہو سکا ۔شک کی بنیاد پر اب تک درجنوں گرفتاریاں عمل میں آئیں لیکن ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیا گیا۔
موٹرسائیکل سوار یہ گروپ صرف خواتین کو ہی نشانہ بناتا ہے خواتین کو کسی تیز دار آلے کے ساتھ زخمی کرنے کے بعد اچانک غائب ہوجاتا ہے ۔آخر وہ خواتین کو ہی اور خاص کر نوجوان لڑکیوں کو ہی کیوں نشانہ بناتا ہے ۔یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صرف فیشن ایبل لڑکیوں کو نشانہ بناتا ہے اس کا شکار وہ خواتین بھی بنی جو برقع میں ملبوس تھیں ۔زیادہ تر کاروائیاں ایک فرد نے ہی کیں ہیں سوائے چند ایک کے جب دو حملہ آور دیکھے گئے ۔اس لیے کیا وہ ایک گروپ ہے یا فرد واحد ہے اس بارے میں بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔اسی طرح ان حملوں کی کل تعداد کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ، حملے کا نشانہ بننے والی زیادہ تر خواتین نے پولیس میں رپورٹ نہیں کی، کیونکہ انہیں پولیس پر اعتماد نہیں اور یہ کہ بدنامی سے بچنے کے لیے بھی خواتین رپورٹ نہیں کرتی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اب تک 65 سے زائد خواتین اس حادثہ کا شکار ہو چکی ہیں۔
Police
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر افراد اپنی بچیوں اور اپنے خاندان کی بدنامی کے باعث پولیس کو اطلاع نہیں دیتے۔ تازہ ترین چھری مار جنونی کی طرف سے ہونے والے دونوں حملے جن میں سے ایک مئی اور دوسرا 18 مئی کو ہوا جس میں 5 خواتین کو زخمی کیا گیا کسی نے بھی سفاک چھلاوے کے خلاف بوجہ ڈر ایف آئی آر درج نہیں کروائی ۔ان حملوں میں پرسرار حملہ آور نوجوان سفید لباس میں ملبوس تھا۔ان حملوں کے بعد مسلم یوتھ ونگ .شباب ملی.اسلامی جمیعت طلبہ .ایم ایس ایف . چیچاوطنی ویلفیئر پہلے اس حوالے سے ٹیمیں بنا کر متحرک ہوئے تھے یہ کام رک گیا تھا اب دوبارہ کام شروع کیا ہے ۔اصل میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔اب چند دن یہ محافظ نوجوان اور پولیس کے خفیہ دستے شہر کی کڑی نگرانی کریں گے ،اور جب ان کی نگرانی میں تسلسل نہ رہے گا تو سفاک درندہ حسب سابقہ اپنی خونی پیاس بجھانے نکل کھڑا ہو گا ۔حملوں میں اکثر خواتین کی ٹانگوں، پیٹ ، کمر ،بازو،کمر کے نیچے کولہے پر وار کیے گئے۔
زیاد تر خواتین کو شام کے وقت نشانہ بنایا گیا ۔ ان واقعات کے بعد کئی خواتین شام گئے گھروں سے باہر جبکہ طالبات سکول جانے سے کترا رہی ہیں۔اب تک اس حملہ آور کا اصل محرک سامنے نہیں آیا اور بظاہر وہ پاگل معلوم ہوتا ہے کسی نے نفسیاتی مریض کسی نے مذہبی جنونی بھی کہا ہے جو خواتین کو گھروں میں مقید کرنا چاہتا ہے اور کسی نے اذیت پسند کہا ہے اب تو اسے دہشت گرد کہا جا رہا ہے ۔ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس چھلاوے کا ایسی خونی کاروائیاں کرنے کا مقصد کیا ہے ۔محکمہ پولیس نے حملہ آور کی گرفتاری پر تقریباً دو لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا۔ علاوہ اس کے شہر کی دیگر بہت سے تنظیموں کی طرف سے اجتماعی طورر پرتقریبا 10 لاکھ کا انعام مقرر کیا ہے جو اس جنونی بابت کوئی انفارمیشن دے یا اس کی گرفتاری پر معاونت کرے ۔پولیس کی جانب سے ملزم کے خاکو ں کی تشہیر کی گئی ہے لیکن قباحت یہ ہے کہ کوئی خاکہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جنونی چھلاوے کا ہے اصل میں مضروب ہونے والی خواتین خوف ،ڈر ،اور دہشت کی وجہ سے بدحواس ہی اتنی ہوتی ہیں کہ حملہ آور کی شکل یاد ہی نہیں رہتی پھرحملہ آور چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔
ہر حملہ کے بعد پولیس گشت کو موثر بنایا گیا لیکن جب کافی دن گزر جاتے ہیں چھری مار کوئی کاروائی نہیں کرتا تو گشت ڈھیلا پڑجاتا ہے جس سے وہ اذیت پسند فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یوں تو شہر بھر میں مختلف مقامات پر CCTV کیمرے نصب کئے گئے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود پراسرار موٹر سائیکل سوار گذشتہ تقریباََ 20 ماہ سے قانون کی آنکھوں میں دْھول جھونک رہا ہے ۔چیچاوطنی کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلی پنجاب ،وزیر داخلہ پنجاب اور آئی جی پنجاب کو لیٹر اور درخواستیں ارسال کی گئیں جن کا تاحال کوئی جواب نہ آیا ہے ۔ ۔پورے شہر میں سر شام ہی ہو کا عالم ہو جاتا ہے ،اس دہشت زدہ کر دینے والے حملوں کی وجہ سے شہر میں خوف وہراس پھیل چکا ہے ۔کاروبار اور معمولات زندگی متاثر ہوئے ہیں ۔کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں ۔پورا شہر آسیب زدہ لگتا ہے نوجوان لڑکیوں خوف کی وجہ سے سکول و اکیڈمی جانے سے کترا رہی ہیں ۔چیچہ وطنی کی عوام نے حکومت سے اس صورت حال پر قابو پانے اور خنجر بردار گروپ کی گرفتاری کے لیے اس علاقہ میں انٹیلی جنس کو متحرک کرنے کی اپیل کی ہے ۔ اگر دنیا میں اس طرح کا واقعہ ہوتا تو اس ملک کے خفیہ ادارے اس راز کا کھوج لگانے کے لیے خفیہ طور پر متحرک ہو چکے ہوتے تاکہ اصل حقیقت معلوم کی جائے کہ جنونی چھلاوہ ایسا کیوں کر رہا ہے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان میں تو کیا شائد پوری دنیا میں اس طرح تسلسل سے جاری رہنے والایہ منفرد ترین واقع ہے۔