تحریر : عارف رمضان جتوئی مچھر سے پھیلنے والی بیماریاں ملیریا، ڈینگی اور نگلیریا کے بعد چکن گونیا نامی وائرس نے کراچی پر حملہ کردیا ہے۔ جس کے زد میں آکر 24گھنٹوں کے دوران 2000سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ابتدائی طور پر اس بیماری کا انکشاف کراچی کے علاقے ملیر کھوکھراپار میں ہوا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ملیر میں ایک ماہ سے اسی بیمارسے 30ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ بیماری سے اسپتال کا عملہ بھی متاثر، سندھ گورنمنٹ اسپتال ملیر کے 70سے زائد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی متاثر ہوگیا، مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی یہ پراسرار بیماری متاثرہ فرد کو 104 درجہ حرارت تک تیز بخار میں مبتلا کردیتی ہے۔ ملیر میں یومیہ 1700 تک کی تعداد پراسرار بیماری سے اسپتالوں میں پہنچ رہی ہے بیماری نے ملیر میں علاج کرنے والے ڈاکٹروں کو بھی نہ بخشا، ملیر کھوکھرا پار، ملیر سٹی اور گڈاپ میں چکن گونیا کے کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، سندھ گورنمنٹ اسپتال کھوکھرا پار میں متاثرہ 18 افراد زیرعلاج ہیں جن میں اسپتال کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہیں۔متاثرین میں سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کے 18 ڈاکٹرز پیرا میڈیکل اسٹاف کے 38 ملازم، 8 سینیٹری ورکرز بھی شامل ہیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بیماری مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے لہذا مچھروں سے بچنے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں۔
ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں ڈاکٹرز کے مطابق چکن گونیا کے مریض کو تیزبخار، جوڑوں اورہڈیوں میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے، ایسی علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کریں۔ ڈاکٹرز کے مطابق یہ مرض ایک مخصوص مچھر کے کاٹنے سے لگتا ہے،ڈاکٹرز نے مزید کہا ہے کہ مرض لاحق ہونے کے باعث جسم لاغر ہوجاتا ہے۔ المصطفیٰ اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ ہم اصل میں نہیں جانتے کہ یہ مرض کیا ہے کیونکہ ہم ہر کیس کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے جبکہ بیشتر مریضوں کو درد اور بخار کی معمول کے مطابق ادویات دی جارہی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جب تشخیص کی گئی تو متعدد مریضوں میں ڈینگی، ٹائیفائڈ اور ملیریا کی علامات پائی گئیں۔محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت چکن گونیا نامی بیماری کے ٹیسٹ کرنے کی سہولت صرف آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے پاس موجود ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ وبائی مرض مچھر سے پھیل رہا ہے اور کچرے کے ڈھیر بھی اس وائرس کے پھیلنے کا سبب ہیں۔ ماہرین کے مطابق مذکورہ مرض میں مریض 6 سے 10 روز تک تیز بخار میں مبتلہ رہتا ہے، جبکہ یہ مخصوص مچھر کے کاٹنے، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مبینہ طور پر چکن گونیا ہے جو جسم سے سوڈیم اور پوٹاشیم کو کم کردیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کچھ دنوں کے لیے چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ضلعی انتظامیہ نے دیگر اضلاع سے اضافی ڈاکٹروں کو ملیر طلب کرلیا ہے۔
Murtaza Baloch
حکومتی قیاس آرائیاں اور الزامات وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے کچی آبادی مرتضی بلوچ نے کہا کہ ملیر میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے برابر ہے، علاقے میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے جب کہ مچھروں کے خاتمے کے لئے بلدیاتی اداروں کی جانب سے اسپرے بھی نہیں کیا جارہا جس کے باعث علاقہ مکین چکن گونیا نامی بخار کے وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے کچی آبادی مرتضی بلوچ نے کا کہنا تھا کہ ملیر میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے برابر ہے، علاقے میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے جب کہ مچھروں کے خاتمے کے لئے بلدیاتی اداروں کی جانب سے اسپرے بھی نہیں کیا جارہا جس کے باعث علاقہ مکین چکن گونیا نامی بخار کے وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سکندر میندھرو کا کہنا ہے کہ ملیر سعود آباد میں پھیلنے والی بیماری پر اسرار ہے چکن گونیا نہیں، جبکہ اسپتال سے بیشترمریضوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چکن گونیا بیماری دنیا میں موجود ہے لیکن پاکستان میں اس کا کوئی مریض رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ وزیر صحت سندھ کا کہنا تھا کہ وائرس کی تشخیص تاحال نہیں کر سکے ہیں، تاہم مریضوں کے خون کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھیجے ہیں، جبکہ اسلام آباد سے بھی طبی عملے کو طلب کرلیا گیا ہے۔سیکریٹری صحت سندھ عثمان چاچڑ نے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ شہری مچھروں سے بچا کے لیے مچھر دانی استعمال کریں۔ جبکہ شہر کے ڈپٹی مئیر ارشد وہرہ نے بیماری کا سبب کچرے کے ڈھیر کو قرار دیتے ہوئے دعوی کیا کہ بلدیہ عظمی کراچی محدود وسائل میں ملیر سے کچرے کی صفائی کا کام کر رہی ہے۔
کیا چکن گنیا بیماری اچانک آئی ہے پاکستان میں اس بیماری کا کوئی وجود نہیں تھا تاہم اب کراچی کے بعد اس کا ملک بھر میں پھیلنے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری پاکستان کے لیے نئی ہوسکتی تاہم ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا بھر میں گزشتہ کئی سالوں سے اس بیمارے کا وجود پایا جاتا ہے۔ عالمی صحت کے ادارے وولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے پروگرام جی اے آر کے تحت انکشاف کیا گیا تھا کہ 12فروری 2006ء سے 28مارچ 2005ء کے دوران فرانس میں 1722 چکن گونیا کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد یہ بیماری بھارت، اسپین،ارجنٹینا، امریکا، کینیاسے بھی اس وائرس کے نمونے ملے اور ہزاروں افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے۔ جس کی وجہ سے یہ بیماری کوئی نئی یا اچانک کی نہیں بلکہ بہت ہی قدیم وائرس ہے جو مختلف ملکوں کے بعد پاکستان میں بھی اس کے انکشافات ہورہے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی پھرتیاں مبینہ طور پر چکن گونیا نامی بیماری کی اطلاع کے بعد محکمہ صحت سندھ کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ نے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی محکمہ صحت نے یہ فیصلہ ملیر کھوکھراپار نمبر 2 کے ایک نجی اسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کی جانب سے حکام کو دی جانے والی اطلاع کے بعد کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ علاقے میں مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی مبینہ طور پر چکن گونیا بیماری کی اطلاع ہے جس سے مریض کو تیز بخار اور جوڑوں میں درد کی شکایت ہے۔ ڈینگی کی روک تھام اور کنٹرول پروگرام کے پروگرام مینجر ڈاکٹر مسعود سولنگی کا کہنا تھا کہ المصطفی ویلفیئر سوسائیٹی اسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے انھیں اطلاع دی کہ ان کے اسپتال میں مبینہ طور پر چکن گونیا کے مرض سے متاثرہ متعدد مریض لائے گئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ میں نے مذکورہ ڈاکٹر سے ان کے اسپتال میں چکن گونیا کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہونے کے حوالے سے پوچھا ہے، یہ سہولت مذکورہ اسپتال میں موجود نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تیز بخار اور جوڑوں کے درد کی علامات کی وجہ سے شاید اسپتال کے ڈاکٹر اس مرض کو چکن گونیا قرار دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اس کی تحقیقات کریں گے اور اسلام آباد سے بھی ماہرین کی ٹیم کو طلب کیا گیا ہے، مذکورہ مرض کی علامات بھی ڈینگی کی طرح ہیں، جس میں تیز بخار، بدن میں درد اور خارش شامل ہے اور یہ غلط طور پر تشخیص بھی ہوسکتا ہے جبکہ یہ مرض شاذ و نادر ہی مہلک ہے۔ ان کے مطابق شہر میں فوری طور پر ویکٹر کنٹرول کی ضرورت ہے، خاص طور پر فیومیگیشن اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے اقدامات کرنے ہوگے تاکہ ملیریا، ٹائیفائڈ اور ڈینگی جیسی بیماریوں سے بچا جاسکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک دہائی قبل ڈینگی کا مرض موسم سرما میں رپورٹ نہیں ہوتا تھا تاہم اب ایسا ہورہا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ مرض خود کو کامیابی سے شہر کے موسمی حالات کے ساتھ ڈھال رہا ہے۔
Chikungunya Patient
چکن گونیا کیا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن )ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ کے مطابق چکن گونیا ایک وبائی مرض ہے اور مچھر کے کاٹنے کے باعث انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس مرض کی علامات میں تیز بخار، جوڑوں کا درد، پٹھوں کا درد، سر درد، متلی، تھکاوٹ اور خارش شامل ہیں۔ جوڑوں کا درد اکثر کمزروی کا باعث بنتا ہے اور اس مدت میں ہر مرحلے میں مختلف ہوسکتا ہے۔ اس مرض کی کچھ علامات ڈینگی وائرس سے مشابہت رکھتی ہیں اور جن علاقوں میں ڈینگی کا مرض عام ہیں ان میں یہ مرض غلط طور پر تشخیص بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض کا علاج موجود نہیں تاہم علامات کے علاج سے مرض میں کمی آتی ہے۔چکن گونیا کے مرض میں اضافے کی وجہ انسانی رہائشی علاقوں میں مذکورہ وائرس سے متاثرہ مچھروں کی افزائش ہے۔ مرض شاذ و نادر ہی مہلک ہے۔اس بیماری میں تیز بخار اور جوڑوں میں درد کی شکایات سامنے آتی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر علامات میں پٹھوں میں درد، سر درد، متلی، تھکاوٹ اور خارش بھی شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او اور وزارت صحت کی پاکستان میں بیماری کی تردید whoڈبلیو ایچ او اور وزارت صحت نے ملک میں چکن گنیا وائرس کی موجودگی کی تردید کر دی۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تاحال چکن گنیا وائرس کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی ہے۔ وزارت قومی صحت اور ڈبلیو ایچ او نے چکن گنیا نامی وائرس سے متعلق مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چیکن گنیا وائرس کا تعلق ڈینگی اور زیکا وائرس فیملی سے ہی ہے اور ڈینگی مچھر ہی چکن گنیا وائرس کی منتقلی کا زریعہ ہے، جبکہ چیکن گنیا وائرس موجودگی کی صورت میں انسداد ڈینگی جیسے اقدامات کرنا ہونگے۔ اعلامیے کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں وائرس موجودگی کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں، جبکہ چکن گنیا وائرس کی موجودگی سے متعلق خبریں جھوٹی اور گمراہ کن ہیں عالمی ادارہ صحت صوبائی صحت حکام کے ہمراہ تحقیقات کر رہا ہے۔
چکن گنیا کی تصدیق اسلام آباد میں قومی ادارہ صحت کی لیبارٹری نے کراچی کے علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والے تین مریضوں میں چکن گنیا کی تصدیق کردی ہے۔وفاقی طبی ماہرین کی خصوصی ٹیم چند روز پہلے کراچی آئی تھی اور اس نے کراچی کے علاقوں ملیر، کھوکھرا پار، سعود آباد اور شاہ فیصل کالونی میں تیزی سے پھیلنے والی نامعلوم بیماری میں مبتلا مریضوں کے خون کے نمونے حاصل کئے تھے جنہیں تجزیئے کےلئے اسلام آباد بھجوا دیا گیا تھا۔صوبائی اور وفاقی صحت کے اداروں کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کے پاکستانی نمائندگان بھی مسلسل پاکستان میں چکن گنیا کی موجودگی سے انکار کررہے تھے اور اسے سنسنی قرار دے رہے تھے۔ البتہ کراچی کے تین مریضوں میں باضابطہ طور پر چکن گنیا کی تصدیق ہوجانے کے بعد میڈیا کا خدشہ درست ثابت ہوگیا ہے۔