اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی رٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن ازخود تبدیل ہو گئی۔
چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے جسٹس ناصرالملک دونوں اداروں کے سربراہ بن گئے جبکہ جسٹس انور ظہیرجمالی سپریم جوڈیشل کونسل اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ جوڈیشل کمیشن کے نئے رکن بن گئے۔ سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت قائم ادارہ ہے جو ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کیخلاف بے قاعدگیوں کی صورت میں انکوائری کرتی ہے۔
اگر اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کیخلاف سنگین الزامات ہوں یاان کے ذہنی توازن کے بارے میں کوئی شکایت ہوتو صدر مملکت معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس کی شکل میں بھیجتے ہیں اور کونسل انکوائری کرکے سفارشات کی شکل میں صدرمملکت کو رپورٹ کرتی ہے، کونسل کسی پرائیویٹ شخص کی شکایت پربھی انکوائری کرنے کی مجاز ہے۔
تاہم خود کارروائی کرنے کی مجاز نہیں، عام شہری کی شکایت کی انکوائری کے بعد کونسل کا فیصلہ سفارشات کی شکل میں صدر کو بھیجا جاتا ہے۔ آئین کے تحت صدر مملکت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر عمل کے پابند نہیں ہیں، اگر کونسل کسی جج کو بر طرف کرنے کی سفارش کردے توضروری نہیں کہ صدرمملکت اس پر عمل کریں تاہم وہ کسی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کے بغیر برطرف نہیں کرسکتے۔ سپریم جوڈیشل کونسل 5 ارکان پر مشتمل ادارہ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان بلحاظ عہدہ ادارے کے چیئرمین جبکہ سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین جج اور 2 ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان جوباقی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے سینئر ہوں اس کے رکن ہوتے ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کیلیے جوڈیشل کمیشن آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت قائم ہے جو 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کی صورت میں اس میں 8 ارکان ہوتے ہیں جن میں 4 سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ایک سپریم کورٹ کے رٹائر جج، وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے جج کی تقرری کی صورت میں اس کمیشن کے ارکان میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور ایک سینئر ترین جج جبکہ ہائیکورٹ کی صورت میں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، ایک سینئر ترین جج، صوبائی بار کونسل کا نمائندہ اور صوبائی وزیر قانون شامل ہوتا ہے۔