تحریر : نسیم الحق زاہدی عزت مآب !بلا کسی تمہید کے میں اصل موقف کی طرف آتا ہوں نبی رحمت قائد انسانیت حضرت محمد ۖ کا فرمان عظیم ہے کہ ”اگر کسی برائی کو ہوتے دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ سے نہ روک سکوتو اسے زبان سے روکو اگر زبان سے بھی روکنے کی ہمت نہ رکھتے ہو تو اسے دل سے برا جانو یہ کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے”۔پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا نجی ٹی وی چینلز نے ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت جس قدر عریانی وفحاشی کو فروغ دیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ہمارے ٹی وی چینلز کو طاغوتی طاقتیں چلا رہی ہیں جن کا مقصد صدیوں پہلے فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی نے واضح کردیا تھا ”اگر کسی قوم کو جنگ کیے بغیر شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں کے اند رفحاشی پھیلا دو وہ قوم جنگ کیے بغیر تباہ ہوجائے گی ”۔حدیث مبارکہ کے مطابق تمام کفر ایک ملت ہے ،اور یہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ہم اندھی عوام سمجھنے کی بجائے انکی پیروی کررہے ہیں آج ہمارے چند بکے ہوئے ناعاقبت اندیش دانشور ،مذہبی سکالز ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اسلام کو قید وقیود کا مذہب ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کوئی داجہ داہر کو ہیرو کہتا ہے، تو کوئی گاندھی کا پیروکار ہے۔
سارا سال نچانے ،گانے والے/والیاں رمضان المقدس کے مبارک ماہ میں ہمیں دین کی تعلیمات دینا شروع کردیتے ہیں اس سے بڑھ کر اسلام کے ساتھ اور کیا مذاق ہوگا ؟شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جاتا ہے عورتیںو مرد وںکی مشترکہ نماز جنازہ میں شرکت پر اسلامی قوانین کا جنازہ نکلا جا رہا ہے وقت قریب کہ مساجد میں نمازیں خطبات خواتین دیا کریں،کالجز،یونیورسٹیز میں بیلی ڈانس ،ایک ہم داڑھی نہ رکھ کر سنت نبویۖکا انکار کرتے ہیں تو دوسری طرف داڑھی کو مختلف سٹائل میں کٹواکر اس کی سرعام توہین کرتے ہیں داڑھی کو دہشت کی علامت بنادیا گیا ہے آج ہماری بہنیں ،بیٹیاں داڑھی رکھنے والے مردوں سے شادی کرنا پسند نہیں کرتیں اکثر اوقات لڑکی والے یہ شادی کے لیے یہ شرط رکھتے ہیں پہلے لڑکا کلین شیو کرائے بعد میں شادی ہوگی افسوس اسلام نے عورت کو جو مقام دیا وہ آج تک دنیا کا کوئی مذہب ،عقیدہ نہ دے سکا مگر ہم دوسرے مسخ شدہ مذاہب کے آلہ کار بن گئے آج ہمارا اس وقت تک کا روبار نہیں چلتاجب تک اس کے عورت کی شمولیت نہ ہو بقول ساغر صدیقی !کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں ۔مارننگ شوز کے نام جتنی فحاشی پھیلائی جارہی ہے اس کا نقصان شاید صدیوں میں بھی پورا نہیں ہو پائے گا ادھر خواتین کی انڈرگارمنٹس کے اشتہارات اور ایام مخصوص کے لیے Menses Pads کے اشتہارات اس قدر فحش اور ناقابل اعتراض ہیںجس وقت یہ اشتہار چلتا ہے باپ بیٹی کی طرف نہیں دیکھ پاتا ماں بیٹے کی طرف، ہمارا پڑھا لکھا جاہل طبقہ اسے آگاہی کا نام دیتا ہے جبکہ یہ آگاہی نہیں Pre Planned فروغ فحاشی ہے آج ہمارے ڈراموں کے اندر تقدسات کا جنازہ نکل چکا ہے مشہور ڈرامہ سریل” بلبلے ”کے اندر بیٹا اپنے سوتیلے کا نام لیکر پکارتا ہے ٹائٹس ،جیز اور آدھا لباس سرعام گلے ملنا تو عام سی بات ہے۔
ڈرامہ سریل ”میراسایہ”کے اندر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن پاک پڑھنے کے باوجود بدروحیں آسکتی ہیں جب فرمان شہنشاہ امن حضرت محمدۖ ہے کہ جہاں قرآن پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بھوت پریت نہیں آسکتا گذشتہ روز ”آج”ٹی وی چینل پرچلنے والا جوش کنڈوم کا اشتہارجس نے اخلاقیات کی تمام حدود توڑ چکا ہے،ایک عورت ائیرپورٹ پر ،کہیں جارہی ہوتی ہے تو ایک پولیس والا بریف کیس کی چیکنگ کرنے کا کہتا ہے اور جب بریف کیس کھولا جاتا ہے تو اس میں Josh Condomsکی کئی ڈبیاں نکلتیں ہیں اور عورت شرما کر کہتی ہے کہ ان سے دس دن بعد مل رہی ہوں۔عزت مآب !دوسری طرف ہمارے ہاں تھڑے بازیوں کا روج ہے جسے ہم اپنی ثقافت کا نام دیتے ہیں رات گئے تک محلوں، گلیوں بازاروں، چوراہوں پر بگڑے ہوئے نوجوانوں کا جتھوں کی صورت میں کھڑے رہناآتی جاتی خواتین پر آوازیں کسنا،اونچی آواز میں بھڑکیں مارنا اونچی آواز میں ڈیک پر گانے لگانا یہ عام سی بات ہے اس پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جرائم کی ابتداء یہی سے شروع ہوتی ہے یہی چھوٹے چھوٹے بدمعاش بعد میںبہت بڑے دہشت گرد بنتے ہیں جس طرح انسان کی پہلی درس اس کا گھر (اس کی ماں کی گود ہے ) ہزاروں بلکہ لاکھوں مثالیں موجود ہیں ”ایک بااثر باپ کے بیٹے نے سرعام ایک غریب کی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کی منع کرنے پر لڑکی کے بھائی ،باپ کو گولی مار دی”ایک افسر کے اوباش بیٹے نے کرسی اور دولت کے نشے میں شراب پی کر زبردستی گھر میں گھس کرایک غریب عورت کی عزت لوٹ لی شکایت کرنے پر پولیس نے الٹا اس کے خاوند کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر دیا۔
یہ ہمارے معاشرے کے زندہ حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر افسوس کہ انکار تدراک بھی نہیں کیا جا رہا ۔جب تک گناہگاروں کو سزا نہیں دی جائے گی تب تک معاشرہ درست نہیں ہو گا ،عزت مآب !ہمارے ہاں ایک اور بڑا المیہ پرائیوٹ سکولز مافیا ہے جن کوئی پوچھنے والا نہیں پلے گروپ کے بچے کی فیس چار،پانچ ہزار سے شروع ہوکر کئی ہزاروں میں جاتی ہے گورنمنٹ سکولز کے اندر ابتدائی جماعتوں کے بچوں پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جاتی جس کا بھرپور فائدہ پرائیوٹ سکولز مافیا اٹھاتاہے جب ڈگری گورنمنٹ سکولز ،کالجز،یونیورسٹیزکی قابل قبول ہیں تو یہ پرائیوٹ مافیا کیوں ؟ایک اور اذیت ناک سچائی میڈیکل لیب و کمپنیز مافیا Hepatitis B C Screening Kitsبازار میں پچاس روپے سے لیکر اسی روپے تک دستیاب ہیں مگربڑی لیب میں اس ٹیسٹ کی قیمت ایک ہزار سے لیکر کئی ہزار ہے اسی طرح دوسرے Testsہیں ،مگر ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں سرکاری ہسپتالوں میں Testsکے سہولیات موجود نہیں ہوتیں اگر ہوتی ہیں تو ٹیسٹ کرنے والے موجود نہیں ہوتے۔
عزت مآب !بحیثیت غریب پاکستانی شہری ہمہ وقت ان مشکلات کا سامنا رہتا ہے جب کہ یہ بذمہ ریاست ،حکومت ہیں آپ سے اپیل ہے کہ خدارا ہ اس ملک کے اندر قوانین کا عملی نفاذ کروائیں فی الفور ایسے بے ہودہ واہیات مارننگ شوز جن کا مقصد صرف اپنی ریٹنگ بڑھنا ہے بندھ کیے جائیں اور خواتین کے حوالے سے،کنڈومز کے اشتہارات پر فوری پابندی عائد کی جائے دن یا رات کو محلوں کے اندر کھڑے ہوئے والے آوارہ نوجوانوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے ۔کوئی ایسا قانون پاس کریں کہ ”میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو”عزت مآب !ہر غریب کو وہ آزادی دی جائے جس کے حصول کے لئے ہمارے آبائو اجداد نے اپنی جانوں کے نذارنے دئیے تھے ۔غریب کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے اسکی ماں،بہن ،بیٹی کی عزت کو اتنا ہی اہم سمجھا جائے جتنا کہ ایک وڈیرے سرمایہ دار کی ماں،بہن ،بیٹی کو سمجھا جاتا ہے ۔اسے بھی ویسی ہی حفاظت دی جائے ،غریب کو بھی وہی طبی سہولیات دی جائیں جو ایک حاکم وقت کو حاصل ہوتی ہیں ،غریب کو بچوں کو بھی وہی تعلیم دی جائے جو ایک شہنشاہ کے بچوں کو میسر ہوتی ہے ۔امید واثق ہے کہ آپ میرے خط پر نظر ثانی فرمائیں گے۔منتظر ایک محب وطن پاکستانی