تعلیم کے ذریعہ سے ہی اقوام و ملل ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیں۔تاریخ کے حوادث کو دہرانا عبث ہے کیونکہ عقل و خرد کے حاملین احسن طورپر ازمنہ قدیم سے بخوبی آگاہ و واقف ہیں۔ رومی و ایرانی، مصری و یونانی ،ہندی و چین کی سلطنتوں کو جو عروج ملتا رہاہے وہ بھی علم و فن میں پیش قدمی ہی کی وجہ سے میسر آیا بعینہ اسی طرح بعثت دین محمدیۖ کے بعد بھی اسلامی ریاست کو بھی بے مثال عروج ملا کہ نصف عالم سے زیادہ خطے پر اسلامی پرچم لہراتارہاہے۔خلافت و اموی و عباسی اور خلافت عثمانی کے خلفاء و سلاطین نے اپنے اپنے ادوار میں وقت کی نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے علم و فن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایاہے۔ تاہم سوء اتفاق کہا جائے یا کچھ اور کہ مسلم قوم علم و فن کے میدان میں پسپائی اختیار کرنے لگے جس کے نتیجہ میں ریسرچ و تحقیق اور ایجاد و تخلیق سے رخ پھیرا تو اللہ تعالیٰ کی مددو نصرت بھی ہم سے دور ہوئی اور مسلمانوں کو استعمار کا زیرنگین کر دیا۔
مرورِ زمانہ کے ساتھ مسلم قوم میں بیداری کی لہر ضرور پیدا ہوئی اور اسی لیے مسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیمی جامعات کی تشکیل عمل میں لائی گئی جن میں قدیم و جدید تعلیمات اسلام کی حفاظت کے ساتھ تطبیقی علوم کی مواضبط کا بھی اہتمام کرنے کا آغاز ہوا۔تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک کو مخلص و صالح قیادت میسر نہیں آرہی کہ وہ اپنے اسلاف و اخلاف کے صالح و مفید منصوبوں اور کام کو بہتر انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور مسلمانوں کو دستگیر بنانے کی بجائے ایسا باصلاحیت بنا دیں کہ دنیا بھر مسلم ممالک کے سامنے سرنگوں ہو کیونکہ مسلمان کا سر اور ہاتھ صرف اور صرف اللہ کے سامنے جھکنا اور پھیلنا چاہیے نہ کہ امریکہ ، روس، چین و یورپ کے سامنے۔پاکستان عالم اسلام کا وہ خوش نصیب ملک ہے جو محنت و قربانیوں کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا اور اس کے قیام کا وحید مقصد اسلامی تعلیمات کا نفاذ و احیاء تھا ۔مگر ملک کی صورتحال ایسی دگرگوں ہوئی کہ یہاں پر تعلیم و صحت کے شعبہ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے جن کا حال ہی میں بڑا چرچا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بذات خود ترجیحی بنیادوں پر نوٹس لے رہے ہیں کہ ملک میں تعلیم و صحت کے شعبے میں بدترین بے ضابطگیاں ہیں کہ وہاں پرتقرریاں قواعد و ضوابط کے خلاف ہورہی ہیں۔ ان کا استعمال مثبت کی بجائے منفی امور کیلئے کیا جاررہاہے۔ گذشتہ ہفتے چیف جسٹس نے پنجاب کی جامعات میں تقرریوں کا نوٹس لیتے ہوئے وائس چانسلر لاہور کالج یونیورسٹی کو برطرف کردیا اور دیگر کو مستعفی ہونے کا حکم دیا۔
اسی طرح کی صورتحال بلکہ اس سے بدتر صورتحال کا سامنا عالم اسلام میں مسلمانوں کے تعلیمی و تحقیقی تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے قائم ہونے والی یونیورسٹی کو ہے کہ وہاں کا صدر ابتداً خلاف ضابطہ دوسال کیلئے تعینات ہوتاہے اور پھر اس کو چار سال کیلئے کرسی صدارت عنایت کرنے کے ساتھ ہی اس کے سابقہ دور کو بھی سند جواز و قانون فراہم کیا جاتاہے۔اور بلآخر اسی شخصیت کو مزید چار سال کیلئے صدر مقرر کردیا جاتاہے۔تاہم اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس سے معلوم ہوتاہے کہ جو یونیورسٹی موصوف کی آمد سے قبل ٹاپ کی پانچ یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی اس کی ریکنگ بیس بڑی یونیورسٹیوں میں بھی نہیں رہتی، ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے دودرجن پی ایچ ڈی پروگرامز پر پابندی عائد کردی،یونیورسٹی میں ایڈہاک ازم و کنٹریکٹ پر تقرریاں کی گئیں۔یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر ریٹائرڈلوگوں کو تعینات کیا گیا۔ تعلیمی بلاک،رہائشی ہاسٹل و جامع مسجد کی بجائے شیش محل ،عیش و عشرت کدے قائم کیے گئے۔
اقرباپروری کو فروغ دیتے ہوئے اپنے بیٹے کو خلاف قواعد تعلیمی سند جاری کروائی اور تحقیقی ٹیم میں امتحان بورڈ اور اپنے ہمنوائوں کو حصہ بنوایا گیا، موصوف نے یونیورسٹی میں رشوت و لالچ کے طورپر عمرہ و حج کلچر متعارف کروانے کے ساتھ ہوشربا ترقیاں دی گئیں۔یونیورسٹی میں ملکی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئی اسرائیلی کلچر شوکاانعقاد بھی اسلامی یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا اور اسی طرح غیرمسلم اقلیت قادیانی مراکز کے دورے کرواکر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا گیا۔موصوف سال کا نصف سے زائد وقت بیرون ملک دوروں میں گذارتے ہیں جبکہ عرب ممالک سے ہونے والی مالی معاونت کا صرف تعلیمی و تحقیقی امور صرف کی بجائے اپنی کتب کی نشرو اشاعت اور فوٹو سیشن سیمینار و کانفرنسوں پر خرچ کیا۔ملک کی دوبڑی زبانوں کو نہ جاننے کی وجہ سے مترجمین کی فوج ظفر موج کا سہارا لیا گیا۔یونیورسٹی میں فرقہ واریت و انتہاپسندی کو فروغ بخشنے کیلئے اعلیٰ عہدے مخصوص فرقے کو عنایت کئے گئے۔
یہ تو سرسری معلومات فراہم کی گئیں ہیں کہ اسلامی یونیورسٹی میں علمی و ادارتی اور مالی بے ضابطگیاں کی جارہی ہیں اور اس سب کے باجود بھی سعودی عرب کے تسلط کو مزید چار سال کے لئے طول بخشا گیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا پاکستان میں کوئی شخص ایسا موجود نہیںکہ وہ اس جامعہ کی زمام سنبھال سکے؟کیا مجبوری ہے کہ جزوقتی کام کرنے والے شخص کو یونیورسٹی کا صدر بنادیا گیا؟یونیورسٹی میں فرقہ واریت کو شہہ دینے والوں کے خلاف قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا؟کہ اس کی وجہ سے ملک میں مذہبی و مسلکی جذبات کو فروغ مل رہاہے۔ایڈہاک ازم و کنٹریکٹ کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے من پسند ریٹائرڈ لوگوں کو دیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حقوق کو پامال کب تک کیا جاتارہے گا؟دو درجن پی ایچ ڈی پروگرامز کی بندش کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟یونیورسٹی کی آمدنی و اخراجات کا آڈٹ کون کرے گا کہ کتنا پیسہ جائز و ناجائز کاموں پر خرچ ہو رہا ہے؟۔
آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے بحیثیت ایک طالب علم اور پاکستانی کے التجا ہے کہ ملک کو جن اداروں سے قیادت و لیڈرشپ ملتی ہے ان کی اصلاح و احتساب کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے اور اس سلسلہ میں اس بات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ جہاں پر ہم انسان، مسلم ا و رپاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں کیونکہ جس طرح کی تعلیم و تربیت ،تنظیم وترتیب اور نظم و نسق جامعات میں رائج ہوگا اسی کے مطابق ہی نئی نسل مستقبل قریب میں ملک کو لیکر پیش قدمی کریگی۔احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ سیاستدانوں کو جنم دینے والے اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے والوں کا بھی ہونا چاہیے تاکہ ملک و ملت کو نیک و مخلص اور صالح قیادت اسلامی تعلیمات اور پاکستان آئین و قانون کے مطابق میسر آ سکے۔