اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ میں رحیم یارخان مندر حملے سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ بھونگ میں پانی کے نلکے پر لڑائی کے واقعے کی اطلاع ملی ، ایسا کیا ہو گیا کہ لوگ ایک گھونٹ پانی پر لڑنے لگے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معاشرے میں اخلاقی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے عدالت کو آگاہ کیا بھونگ میں کچے کے علاقے کے باعث آج بھی خطرہ موجود ہے،کرک مندر کی دسمبر سے اب تک تعمیر مکمل نہیں ہو سکی۔
جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کو روسٹرم پر بلا لیااور سوال کیا کہ بتائیں اب تک کرک مندر مکمل کیوں نہیں ہو سکا؟
عدالت کے پوچھنے پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ کرک مندر کی تعمیر عدالت کے حکم کے مطابق مکمل ہوچکی، کرک مندرکی تعمیر اور ہندو کمیونٹی کے اظہار اطمینان کی ویڈیوز موجود ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سنتے ہوئے چیف سیکرٹری کے پی کو کرک مندرکی تعمیر سے متعلق رپورٹ دینےکا حکم دے دیا ، بعد ازاں رحیم یارخان مندر حملہ از خود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔
دوسری جانب رحیم یار خان مندر حملہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کی 30 ہزار سیٹیں خالی ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔
دوران سماعت عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وفاق، پنجاب، کے پی اور بلوچستان حکومتیں اقلیتوں کے کوٹے پر بھرتیاں نہیں کررہی ہیں۔
عدالت کے ریمارکس پر چیئر مین ون مین کمیشن شعیب سڈل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اقلیتوں کی اس وقت پورے ملک میں 30 ہزارسرکاری سیٹیں خالی ہیں۔
شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے لیے سرکاری نوکریوں میں5 فیصد کوٹا مختص ہے جبکہ اس مختص کوٹے میں ہندو، مسیحی، سکھ یادیگر کی وضاحت نہیں ہے۔
عدالت نے اقلیتوں کی سرکاری نوکریوں میں 30ہزارخالی سیٹوں پر اظہار تشویش کیا اور کہا کہ وفاقی حکومت اورصوبائی چیف سیکرٹریز ون مین کمیشن سے تعاون کریں۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتوں کی نوکریوں سےمتعلق معاملات پر متعلقہ اتھارٹیز جلد اقدامات کرکے رپورٹ دیں۔