اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے ایف آئی کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا معلوم کیا مسعود الرحمن عباسی نے تقریر کس کے ایما پر کی، عدالت نے آئندہ سماعت پر فر جرم عائد کرنے کا کہا تھا۔
چیف جسٹس کے خلاف تقریر کرنے والے مسعود الرحمن عباسی کے توہین عدالت از خود نوٹس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، مسعود الرحمن عباسی کو ایف آئی اے نے پیش کیا اور بتا یا سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے ملز م کو گرفتار کرلیا اور تحقیقات جاری ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مسعود الرحمن عباسی سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنا جواب تحریر کیا ہے ،مسعود الرحمن عباسی نے ایک صفحے پر مشتمل بیان بیان پیش کیااور کہا میری والدہ کی وفات اور ساس کی بیماری کے باعث میں ذہنی طور پر پریشان تھا، تاہم جو بیان دیا اس پر شرمندہ ہوں اور عدالت سے معافی مانگتاہوں،عدالت معاف کردے، وعدہ کرتا ہوں آئند ہ کسی ادارے کے خلاف ایسا توہین آمیز بیان نہیں دوں گا ،ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کو تیار ہیں، اگر عدالت چاہے تو وہ پیر پکڑنے کو بھی تیار ہیں،وکیل کرنے کے بھی پیسے نہیں، جیب میں صرف دو ہزار روپے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے، ان کو سیکٹر انچارج کہا، یہ خال کہاں سے آیا، یہ تو سوچی سمجھی باتیں ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے کہا تھا مجھے بلاؤ ،میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا ؤ،اب بتا ؤکیا دکھانا چاہتے تھے، چیف جسٹس سے کیا تعلق تھا، تقریر میں تو آپ نے کسی کا کوئی احترام نہیں کیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا چیف جسٹس ادارے کے سربراہ ہیں، یہ ساری باتیں بغیر سوچے سجمھے نہیں کی جا سکتیں مسعود الرحمن عباسی کا عدالت میں دیا گیا بیان تو بے کار ہے ،ایسے معافی تو نہیں مانگی جاتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یہ گلی کی لڑائی نہیں جہاں آپ پاؤں پکڑیں گے اورمعاملہ ختم ہو جائے گا ،آپ نے جو کچھ بھی کہا لیکن ہم نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے سوچنا تھا ۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ملزم کو قانونی معاونت فراہم کی جائے،سارے معاملہ میں نیب کو بھی دیکھنا ہے ،یہ بھی دیکھنا ہے یہ ایشو کیوں اٹھایا گیا ،آئندہ ہفتے بینچ دستیاب نہیں لیکن کیس جلد سماعت کیلیے مقرر کیا جائے گا۔