تحریر : محمد صدیق پرہار چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد ملک نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پنجاب بھر کے وکلاء کے نمائندوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عہدے کامطلب عقل کل ہونانہیں ہوتا ،لامحدودتوصرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔مسٹر چیف جسٹس نے یہ کہہ کراہم بات کی توجہ دلائی ہے کہ اکثرایسا ہوتاہے کہ جس کوکوئی عہدہ مل جائے وہ خودکوعقل کل سمجھنے لگتا ہے ۔عہدہ مل جانے کے بعدانسان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔جس کوکوئی بڑاعہدہ مل جائے تووہ کہتا ہے کہ جومیں کہوں اسی پرعمل کیاجائے۔مجھے کوئی سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔ایسے عہدیداربھی ہیں جواپنے ماتحتوں کے ساتھ مشورہ کرکے اپنے فرائض منصبی اداکرتے ہیں۔اسلام میں بھی کسی انسان کوعقل کل نہیں کہاگیا۔ کسی انسان کواپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہے۔معاملات میں مشورہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔خودسرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی کئی باتوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا۔لامحدودذات صرف اورصرف واقعی اللہ تعالیٰ کی ہے۔انہوں نے کہاکہ وکلاء کے بغیرنظام عدل کبھی قائم نہیں کرسکتا۔کیونکہ وکلاء کی مدد سے ہی عدالتیں چلتی اورجج فیصلے کرتے ہیں۔وکلاء عوام کے ساتھ بھی تعاون کرتے ہیں اورعدلیہ سے بھی۔صرف وکلاء ہی نہیں عدلیہ میں کا م کرنے والادیگرعملہ اورکلرک ایڈووکیٹ حضرات بھی نظام عدل کے معاونین میں شامل ہیں۔وکلاء نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ آپ سب صوبے کے ہزاروں وکلاء کے براہ راست چنے ہوئے نمائندے ہیں۔وکلاء کی اجتماعی سوچ بھی غلط نہیں ہوتی۔
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جج اوروکیل میں صرف ذمہ داریوں کافرق ہے۔جوکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے سونپی گئی ہیں۔جج کاکام انصاف کرنا ہے جبکہ وکیل کاکام قانون کی روسے معاونت کرناہے۔انصاف کی فراہمی میں دونوں کی ذمہ داریاں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ یہ پوزیشن تبدیل ہوتی رہتی ہے۔مگردونوں میں سے کسی کابھی احترام کم نہیں ہے۔ادب واحترام ہمارے مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔اسلام میں احترام کوبڑی اہمیت دی گئی ہے۔عوام فاضل جج صاحبان اوروکلاء کادل سے احترام کرتے ہیں۔سیاستدانوں کی طرف سے جوبیان بیازیاں ہوتی رہتی ہیں۔عوام اس کی پرزورمذمت کرتے ہیں۔اگرکسی کوکسی فاضل جج سے کوئی شکایت ہے تووہ قانونی راستہ اختیارات کرناچاہیے۔ان سیاستدانوں کوعدلیہ کے احترام کابھی خیال کرناچاہیے۔وکلاء صاحبان قابل احترام ہیں اس سے کسی کوانکارنہیں ہے۔ تاہم کچھ ایسے وکیل بھی دیکھے ہیں جوفریقین کے درمیان صلح کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دیتے۔مسٹرجسٹس منظوراحمدملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سول جج سے لے کرعدالت عالیہ تک تمام جج صاحبان کی تقرری وتعیناتی کے لیے بطوروکیل پریکٹس ہوناضروری ہے۔جج صاحبان دستیاب شہادتوں ، دستاویزات اورقانون کے آئینے میں انصاف کرتے ہیں۔وکلاء اپنے موئکلوں کو انصاف دلانے کے لیے قانون کاباربارمطالعہ کرتے رہتے ہیں۔جج صاحبان کے بعد یہ وکلاء ہی ہیں جوقانون کوبہترطریقے سے جانتے ہیں۔جج صاحبان اوروکلاء حضرات قانون خودنہیں بناتے۔ اس کے مطابق مظلوموں کوانصاف فراہم کرتے ہیں۔فاضل چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک چیف جسٹس ہونے سے زیادہ وہ ایک وکیل ہونے پرفخر کرتے ہیں۔اورآج بھی ان کے گھرکے باہرایڈووکیٹ کی تختی لگی ہوئی ہے۔جوکبھی تبدیل نہیں ہوگی۔جج بننے سے پہلے بھی وکیل ہوتے ہیں اورریٹائرمنٹ کے بعد بھی وکیل ہوتے ہیں۔جسٹس منظوراحمدملک کی یہ بات وکلاء کے پرفیشن کوان کاخراج تحسین ہے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جب سے جوڈیشل کمیشن پاکستان نے انہیں عدالت عالیہ کاچیف جسٹس نامزدکیا ہے۔
تب سے انہوں نے صوبے کے تمام جوڈیشل افسران اورعدالت عالیہ کوہدایات جاری کی تھیں۔کہ اکتیس دسمبر دوہزارچودہ تک کے زیرالتواء مقدمات کی حقیقی صورت حال کی تصدیق کے بعد فہرستیں تیارکی جائیں اورپچھلے بیس دنوں میں تمام عدالتی افسران واہلکاروں نے بغیرکسی چھٹی کے فہرستیں تیارکی ہیں۔اس سے اس بات کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی تعدادمیں ایسے مقدمات ہیں جوزیرالتواء چلے آرہے ہیں۔کہ بیس دن توصرف ان کی فہرستیں بنانے میں لگ گئے۔ یہ کام کسی ایک عدالت میں نہیں پنجاب کی تمام عدالتوں میں ہواہے۔اگرایک ہی عدالت میں یہ کام کیاجاتا پھرتومہینے لگ جاتے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عالیہ کی پرنسپل سیٹ پر۶۸ ہزار،ملتان بنچ میں تقریباً ۳۶ہزار،بہاوالپوراورراوالپنڈی بنچوں میں تقریباًگیارہ گیارہ ہزارمقدمات زیرالتواء ہیں۔جبکہ صوبے کی ضلعی عدلیہ سمیت ۸۰ سے زائد سپیشل کورٹس اورٹربیونلزمیں دس لاکھ کے قریب پرانے مقدمات ہیں۔چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا کہ مقدمات کی تعداددیکھ کردوپہلوسامنے آتے ہیں کہ جس میں اچھی بات یہ ہے کہ عوام اپنے مقدمات عدالتوں میں لے کرآتے ہیں جوکہ ایک مہذب معاشرے کی نشانی ہے۔جبکہ دوسری جانب سے یہ امرقابل تشویش ہے کہ انہیں بروقت انصاف فراہم نہیں ہوتا۔یہ ایک تکلیف دہ پہلو ہے۔
Law
زیرالتواء مقدمات کی جوتعدادبتائی گئی ہے۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مقدمات کب سے زیرالتواء ہیں۔ تمام مقدمات کے بارے میں تونہیں بتایا جاسکتا کہ وہ کب کب سے زیرالتواء آرہے ہیں۔ تاہم اس مقدمہ کے بارے میں بتادیاجاتا توبہترتھا جو سب سے زیادہ طویل عرصہ سے زیرالتواء آرہا ہو۔اس سے یہ معلوم ہوجاتا کہ مقدمات کب سے زیرالتواء ہیں۔یہ تعدادتوعدالتوں میں ان مقدمات کی ہے جوزیرالتواء میں اوریہ تعدادتو صرف اس ایک صوبے کی عدالتوں کی ہے جس صوبے میں دیگر صوبوں کی نسبت انصاف فراہمی کی رفتاربہترہے ۔اگرسپریم کورٹ ، اورملک بھرکی ہائی کورٹس، ڈسٹرکٹس اینڈسیشن ججز کی عدالتوں ، سول عدالتوں، سپیشل کورٹس اورعدالتی ٹربیونلز میں زیرالتواء مقدمات کی فہرست سامنے آجائے تورونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔اس سلسلہ میں ایک اورقابل غوراورقابل تشویش پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تعدادتوایک صوبے میں ان مقدمات کی ہے جوزیرالتواء ہیں۔جتنے عرصہ کی یہ تعدادہے ۔ اتنے عرصہ میں صوبے کی عدالتوں نے کتنے مقدمات کے فیصلے کیے ہیں۔ان کی تعدادان سے کہیں زیادہ ہےقارئین میں سے کسی کوعدالت میں پیش ہوناپڑا ہے مدعی کے طورپریامدعاعلیہ کے طورپرتوجس عدالت میں وہ پیش ہواہے اس کے باہرلگی ہوئی اس دن کے مقدمات کی فہرست پران مقدمات کی تعداددیکھ کراندازہ ہوگیا ہوگا کہ کتنے مقدمات اس دن زیرسماعت ہیں۔ یہ توایک دن کی ایک عدالت کی صورت حال ہے۔ اسی عدالت میں تمام عدالتوں کے باہرلگی ہوئی مقدمات کی فہرست دیکھ لی جائے تو یہ تعدادایک اندازے کے مطابق کم وبیش ایک ہزاربنے گی۔پھر جس دن کی فہرست دیکھی ہے۔ صرف یہی مقدمات ہی نہیں ہوتے جواس فہرست میں ہیںان میں سے کچھ ایسے مقدمات ہوں گے جن کومہینہ بعد پیشی ملتی ہوگی۔ کچھ ایسے مقدمات ہوں گے جن کوپندرہ دن بعد پیشی ملتی ہوگی۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالتوں پرمقدمات کاکتنابوجھ ہے۔انصاف میں تاخیراورمقدمات میں اضافے کی ذمہ دارعدالتیں نہیں ہم عوام ذمہ دارہیں۔ہم معمولی معمولی معاملات کوبھی عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔
دوسروں کوالجھائے رکھنے ،نیچادکھانے اورزچ کرنے کے لیے جان بوجھ کرمقدمات کوطول دلایا جاتا ہے کہ مخالف فریق عدالتوں کے چکرلگالگا کرزچ ہوجائے پھر جیسے ہم منواتے جائیں وہ مانتاجائےاکثرایسا ہوتا ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ ہوجائے وہ اپیل کردیتا ہے۔مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں چلاجاتا ہے۔یہ اس کا آئینی حق ہے۔ بہت کم ایسے مقدمات ہیں جن میں جس فریق کے خلاف فیصلہ ہووہ اپیل نہیں کرتے۔ہم نے توایسے افرادبھی دیکھے ہیں جن کے حق میں فیصلہ ہوا انہوں نے بھی اپیل کردی کہ وہ اس فیصلہ سے مطمئن نہیں ہیں۔جس کے خلاف فیصلہ آجائے وہ تواس فیصلہ کے خلاف اپیل کرے یہ بات توسمجھ میں آتی ہے۔جس کے حق میں فیصلہ ہوجائے اوروہ بھی عدالتوں میں اپیل کرتاپھرے یہ عدالتوں کاوقت ضائع کرنا نہیں تواورکیا ہے ۔جج شہادتوں، دستیاب ثبوتوں اورقانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی پسند یاناپسند نہیں ہوتی۔ان کی کسی سے دشمنی یاکسی سے دوستی نہیں ہوتی۔وہ ذاتیات پربھی فیصلے نہیں کرتے۔چیف جسٹس منظوراحمدملک نے کہا کہ صوبائی عدلیہ کاٹارگٹ ہے کہ دوہزارسات تک کے تمام پرانے مقدمات کورواں سال جولائی تک نمٹادیا جائے گا۔اوراس میں وکلاء برادری کاتعاون بہت اہم ہے۔انہوں نے بتایا کہ عدالت عالیہ میں آج سے جاری کی گئی کازلسٹوں میں دوہزارسات تک کے مقدمات والی فہرست کولال رنگ کے پیپرپرپرنٹ کیا گیا ہے تاکہ جج صاحبان اوروکلاء کوہمارے طے کردہ ٹارگٹ کااحساس ہو۔اوران مقدامات کاجلدازجلدفیصلہ ہوسکےزیرالتواء مقدمات کوجلد سے جلدنمٹانے اورعوام کوجلدسے جلدانصاف فراہم کرنے کی کوششیں پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ افتخاراحمدچوہدری نے بھی عوام کوجلد سے جلدانصاف کی فراہمی کے لیے جوڈیشل ایکشن پالیسی کااعلان کیا تھا جس میں مقدمات کی نوعیت کے لحاظ سے ان مقدمات کی مدت سماعت مقرر کی تھی۔جسٹس منظوراحمدملک نے کہا سائلین کوانصاف کی عدم فراہمی سے معاشرے میں بگاڑ پیداہوتا ہے۔اورلوگ اپنے مسائل کواپنے طورپرحل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس میں لوگوں کوزندہ بھی جلادیا جاتاہے۔انہوں نے بارعہدیداروں کواحساس دلایا کہ ہمارے سسٹم کے اسٹیک ہولڈرزہم سے مطمئن نہیں ہیں۔جوکہ نہایت ہی مایوس کن بات ہے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سسٹم کوچلانے کے دوطریقے ہیں۔ایک توسسٹم کواسی طرح چلنے دیاجائے ،انصاف نہیں ملتاتونہ ملے،لوگ پریشان ہیں تورہیں،جبکہ دوسراطریقہ اس سسٹم کی خامیوں کی نشاندہی کرکے اس میں اصلاحات لانا ہے۔جسٹس ملک نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی ججزکے ساتھ مل کردوسرے طریقہ کاانتخاب کیا ہے۔جوکہ مشکل ضرورہے مگرناممکن نہیںانہوں نے کہاکہ وکلاء کی بہترمعاونت سے عدالت عالیہ سے لے کرسول عدالت تک بہت سی مثبت اصلاحات لائی جائیں گی۔جس سے انصاف کی فوری فراہمی کویقینی بنایا جائے گا۔اورعوام کے اعتمادمیں اضافہ ہوگا۔فاضل چیف جسٹس نے وکلاء سے اپیل کی کہ وہ اپنے تعاون کوجاری رکھیں۔اورچھوٹے چھوٹے معاملات پرہڑتال کے کلچرکوختم کریں ،کیونکہ ہڑتال سے جج پرکوئی اثرنہیں ہوتا۔مگرمسائل میں گھرے عوام کومزیدپریشانی کاسامناکرناپڑتاہے۔
عدالتوں پرمقدمات کابوجھ کم کرنے کے لیے عوام میں شعوربیدارکرنا ہوگا کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات خودبیٹھ کرافہام وتفہیم سے حل کرلیا کریں۔ فیملی مقدمات یونین کونسل کی سطح ہرمصالحتی کونسل میں حل کرائے جائیں ۔مصالحتی کونسل میں ناکامی کی صورت میں عدالتوں میں لائے جائیں۔جوفیملی مقدمہ عدالت میں آئے توفریقین کوتین ماہ کا وقت دیاجائے کہ وہ آپس میں معاملات طے کرلیں ہوسکتا ہے کہ اس سے گھراجڑنے سے بچ جائیں۔ جھوٹے مقدمات اورگواہوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔کہ اس سے عدالتوں پرمقدمات کابوجھ بھی بڑھتا ہے اوران کاوقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ جھوٹے مقدمات کرنے والوں کوجرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسی جرم کی سزامدعی کودی جائے۔عدالتوں پرمقدمات کے بوجھ میں اضافے ایک وجہ حقوق نسواں بل بھی ہے سیاسی مقدمات بھی مقدمات میں اضافے کاسبب بنتے ہیں۔سیاستدانوں کوبھی مخالفین کے خلاف عدالتوں میں جانے سے گریزکرنا چاہیے۔مقدمات کوجلدنمٹانے کے لیے وکلاء کے لیے انعام مقرر کیا جائے کہ اس نوعیت کا مقدمہ اس مدت میں مکمل ہوجائے تووکلاء کواتنا انعام دیاجائے گا۔وکلاء ہڑتال کے کلچرکوختم کردیں تومقدمات کی مدت سماعت کم ہوسکتی ہے۔اس مقصد کے لیے عدالتوں اورججزکی تعدادمیں اضافہ بھی ضروری ہے۔جج بھی انسان ہیں انہیں بھی کام پڑسکتا ہے۔ جوجج چھٹی پرہواس کی جگہ ڈیوٹی جج بٹھایا جائے تاکہ سائلین کوجج کی چھٹی کی وجہ سے سائلین کوایک اورپیشی نہ لینی پڑے ۔یہ فاضل ججز اوروکلاء ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس طرح مقدمات کی تعداداورمدت سماعت کوکم کیاجاسکتاہے۔ہم نے توصرف مشورے دیے ہیں۔اس میں پارلیمنٹ کوبھی اپنا کرداراداکرناچاہیے۔