کراچی (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام اتوار کے روز قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کے اہلکاروں کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر مارچ 2013 سے گرفتاری کے بعد ایم کیوایم کے مزید5لاپتہ کارکنان اور اس سے قبل 1992 سے 1996 کے درمیان 28 لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلئے کراچی پریس کلب کے سامنے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں لاپتہ کارکنان کے اہل خانہ، حق پرست شہدا کے لواحقین اور اسیر کارکنان کے اہل خانہ سمیت ایم کیوایم کے ذمہ داران، کارکنان اور حق پرست عوام نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔
احتجاجی مظاہرے کے شرکا نے اپنے ہاتھوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد سے اب تک لاپتہ کارکنان کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جبکہ ان کی جانب سے وقفے وقفے سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پرجوش نعرے بھی لگائے جارہے تھے۔ شرکا سے رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انجینئر ناصر جمال، رکن رابطہ کمیٹی عامر خان، سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن اور ایم کیوایم لاپتہ کمیٹی کے ذمہ دار بابر انیس نے خطاب کیا۔ اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے ارکان واسع جلیل اورسیدامین الحق بھی موجود تھے جبکہ لاپتہ کارکنان کے والدین نے اپنے پیاروں کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری اور اس کے عینی شاہدین ہونے کی کربناک داستانیں بھی بیان کیں۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کنوینر انجینئر ناصر جمال نے کہا کہ آج کل پاکستان میں آئین کا چرچہ ہے اور قانون کی عملدراری کی بات کی جاتی ہے تاہم جب اس آئین کی عملداری کراچی میں ہونے لگتی ہے تو یہاں آکر آئین ختم ہوجاتا ہے، تجزیہ کار خاموش ہوجاتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک کے آئین کو اپنے بوٹوں تلے روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پاکستان میں وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو دیگر صوبوں کے لوگوں کو حاصل ہیں، بلوچستان کے لوگوں سے ہمدردی ہے مگر میں واضح کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی کے لاپتہ لوگ کیا پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟، یہ کیسا قانون اور عدلیہ ہے جو صرف دوسرے شہروں اور صوبو ں کیلئے نوٹس لیتی ہے۔
رکن رابطہ کمیٹی عامر خان نے کہا کہ لاپتہ کارکنوں کے لواحقین کی تڑپ کو بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ لاپتہ کارکنوں کے لواحقین کے دکھ اور درد کو سمجھیں، لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلئے ایم کیوایم نے پٹیشن دائر کی ہوئی ہے اس پٹیشن کی سماعت فوری بنیاد پرکی جائے اور قانون نافذ کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ یہ لاپتہ افراد کہاں گئے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ اگر پاکستان کیلئے کسی نے قربانی دی ہے تو وہ الطاف حسین کے چاہنے والوں نے بیش بہاقربانیاں دی ہیں۔
ذرائع، عدلیہ کی آزادی میں ہمارا کردار کسی سے ڈھکا چھپا ہے، سینکڑوں کارکنوں کی لاشیں، سینکڑوں ایف آئی آر اور 28 لاپتہ ساتھیوں کے علاوہ 2013 میں 5 مزید کارکنان لاپتہ کردیئے گئے ہیں جبکہ تین حق پرست اراکین سندھ اسمبلی کا خون بھی جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے دیا گیا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ لاپتہ کارکنان کو سرکاری حراست سے فی الفور بازیاب کرایا جائے۔