کراچی (جیوڈیسک) کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے سابق ایم ڈی شاہد حامدکے قتل میں سزائے موت پانے والے مجرم صولت مرزا کے اہل خانہ نے ہفتہ کوپریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا، مظاہرے میں ان کی اہلیہ اور بہنیں شامل تھیں،جنہوں نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے،جن پر نعرے درج تھے کہ ناکردہ جرم کتنے بھائیوں کو ملے گی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیگم نگہت صولت مرزا نے کہا کہ 3دن سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ، ہائی کورٹ گئے تو عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس سپریم کورٹ میں ہے آپ عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں، اس کیس کے حوالے سے انہوں نے میڈیا کو کرائم برانچ کے ڈی آئی جی کی رپورٹ دکھائی اور کہا کہ اس رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ صولت مرزا کے خلاف اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور بیگم شہناز حامد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جس وقت شاہد حامد کا قتل ہوا میں گھر پر تھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہناز حامد نے 2 الگ الگ بیانات دیے ہیں۔ دوسرے جھوٹے بیان کی روشنی میں صولت مرزا کو سزا کس قانون کے تحت دی جارہی ہے۔
نگہت صولت نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کیس کے حوالے سے کوئی آواز بلند نہیں کررہی ہیں،انھوں نے انسانی حقوق کی رہنما عاصمہ جہانگیر ،انصاربرنی اور دیگر تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کیلیے ہمیشہ آواز بلند کرتے ہیں وہ اس کیس میں میرا ساتھ کیوں نہیں دے رہے ہیں،اس کا جواب دیں،17سال سے صولت مرزا جیل میں ہے۔ وہ عمرقید سے بھی زیادہ سزا کاٹ چکا، جب اس کیس کا کوئی عینی شاہد ہی نہیں ہے اور ہماری نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں ہے تو پھر کس قانون کے تحت صولت مرزا کی سزا پر عمل درآمد کیلیے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے گئے۔
صولت مرزا کی اہلیہ نے مزید کہا کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمارا کیس ملک کے نامور وکلااکرم شیخ ایڈووکیٹ ،عزیز اللہ ایڈووکیٹ اور لطیف کھوسہ نے کیوں لڑا ہے ، اس وقت لطیف کھوسہ ہمارے وکیل ہیں، پیر کو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے،چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ ایک مرتبہ میرے شوہرصولت مرزاکیس کے تمام شواہد کا جائزہ لیں اور قانون کے مطابق اس کیس پر فیصلہ صادر فرمائیں ،انھوں نے کہا کہ ڈیتھ وارنٹ کے اجرا کے بعد اب تک صولت مرزا سے ہماری مچھ جیل میں ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔ ہم کراچی کے شہری ہیں ،صولت مرزا مچھ جیل میں ہے اس کو وہاں سزا کیوں دی جارہی ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ صولت مرزا کو کراچی منتقل کیا جائے ،انھوں نے کہا کہ تاحال صولت مرزا کے بھائی فرحت اللہ خان لاپتہ ہیں،ان کی بازیابی کے لیے بھی حکومت اقدامات کرے، انھوں نے کہا کہ ہم صرف مہاجر ہیں ،ہمارا متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان سے سوال کیا گیا کہ ایم کیو ایم نے صولت مرزا سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے ،جس پر انھوں نے کہا کہ اس کا جواب ایم کیو ایم والے دیں گے، میں اپنا کیس میڈیا کے سامنے لائی ہوں میرا کیس میڈیا حکام بالا کے سامنے رکھے۔
ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی آخری ملاقات کب ہوئی اور صولت مرزا نے کیا ردعمل دیا تھا ؟، اس پر انھوں نے کہا کہ جنوری 2015میں مچھ جیل میں ہماری آخری ملاقات ہوئی ،اس ملاقات میں صولت مرزا مکمل طور پر سکون کی حالت میں تھے اور ان کے آخری الفاظ تھے کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے ،خدا کے ہاں دیرہے اندھیر نہیں ، میں نے یہ قتل نہیں کیا ہے میں آخرت میں سرخرو ہوں گا ،صولت مرزا نے وکٹری کا نشان بنایا تھا اور کہا تھا کہ ہم ضرور جیتیں گے ،انھوں نے کہا کہ میں آخری دم تک اپنے شوہر کے لیے لڑوں گی اور مجھے چیف جسٹس آف پاکستان سے امید ہے کہ وہ مجھے انصاف دیں گے ،منگل یا بدھ کو صولت مرزا سے ملاقات کیلیے مچھ روانہ ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے صدرمملکت ،وزیراعظم ،وفاقی وزیر داخلہ،آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ خدا کے واسطے مجھ پر رحم کریں اور میرے کیس کو ایک مرتبہ سن لیں ،اگر صولت مرزا کو پھانسی ہوگئی تو پھر ہم بھی انتہائی ردعمل کے طور پر پھانسیوں پر چڑھ جائیں گے ،انھوں کہا کہ بیگم شہناز حامد اور عمر شاہد حامد سے تاحال رابطہ نہیں ہوا ہے۔
انھوں نے عمر شاہد حامد سے ہاتھ جوڑتے ہوئے درخواست کی کہ 17سال تک میرے شوہر نے جھوٹے الزام میں سزا کاٹی ہے ،اب تو خدا کے واسطے وہ منظر عام پر آجائیں اور یہ بیان دیں کہ جس وقت ان کے والد کا قتل ہوا تھا اس وقت وہ لوگ گھر پر تھے۔ ان کی اس گواہی سے میرے شوہر صولت مرزا کی بے گناہی ثابت ہوسکتی ہے۔