تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا عطائیت قومی کینسر ہے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ” سپریم کورٹ ” نے اس سنگین، اور گھمبیر مسئلہ کے حل کے لئے احکامات صادر فرماکر پاکستان کی غیور عوام پر احسان کیا ہے۔ پاکستانی قوم مشکور ہے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثارصاحب اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جنہوں نے ”عطایت کے خلاف جہاد ” کا عملی نمونہ پیش کیا ۔22کروڑ عوام جن میں کوالیفائڈ ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اور رجسٹرڈ حکماء شامل ہیں۔ آپ کے اس احسن اقدام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اللہ پاک آپ کو اس جہاد کا دنیا اور آخرت میں اعلیٰ صلہ عطا فرمائے۔
واجب الحترام جناب چیف جسٹس آف پاکستان گزارش ہے بحثیت انسان ہر شخص کے ساتھ غم اور خوشی لازم و ملزوم ہے۔اب محکمہ صحت نے اس انسانی کمزوری کا بھر پور فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ محکمہ صحت کی کیا مجبوری ہے کچھ سمجھ نہیں! جیسا کہ بندہ ناچیز نے ”نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی ” سے DHMS باقاعدہ پاس کیا ہوا ہے اور نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔
پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن سے بھی رجسٹریشن حاصل کی ہوئی ہے۔ اور کلینک ٹائم بھی شام 5 تا 8بجے ہے۔ میری غیر موجودگی میں دن 12:30 بجے اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے بند کلینک کو سیل کر دیا او جب میں 5 بجے شام آیا تو کلینک سیل تھا اور نوٹس آویزاںتھا کہ ضلعی CEO محکمہ صحت اتھارٹی گجرات سے رابطہ کیا جائے۔جب ضلعی اتھارٹی محکمہ صحت گجرات جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ صرف میں نہیں بلکہ بہت سارے مسیحا ہیں جن کے بند کلینکس کو سیل کیا گیا ہے۔ گجرات محکمہ صحت کے دفتر ایک ہفتہ کے چکر کاٹنے کے بعد ” پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ” لاہور سے رابطہ کرنے کا کہا گیا۔حالانکہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی اصل رجسٹریشن بھی دیکھائی گئی۔
جب پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن لاہور گیا تو انہوں نے کہا تا حکم ثانی چیف جسٹس آف پاکستان کچھ نہیں ہو سکتا ۔ انہوں نے درخواست وصول کر کے واپس بھیج دیا۔میری طرح درجنوں نہیں بلکہ سیکٹروں حکماء اور ہومیوپیتھس کے کلینکس بند سیل کئے گئے ہیں ۔جو در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جناب عالیٰ ادب سے گزارش ہے کہ بند کلینکس کو Dسیل کروایا جائے۔یہاں یہ امر قابل ِ زکر ہے کہ اکثر و پیشتر حکماء اور عام ہومیوپیتھک ڈاکٹرز سفید پوش طبقہ سے تعلق رکھنے کی بناء پر ” دعائیں ” دیں گئے۔
نہایت ہی ادب سے التماس ہے کہ ملک عزیز سے ” عطایت کا کینسر ”ختم کرنے کے لئے ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے جو میڈیکل کی کسی قسم کی تعلیم کے بغیر ڈاکٹر بنے ہوئے ہیں جن میں محکمہ صحت کے ملازمین شامل ہیں۔
واجب الحترام جناب چیف جسٹس آف پاکستان
محکمہ صحت رجسٹرڈ اور مستند حکماء اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز کو حراساں کر رہا ہے حالانکہ یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ملک عزیز سے بیماریوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے بند کلینکس اور بند دواخانے سیل کر دیئے جاتے ہیں ۔ اگر غلطی سے ایسا ہو بھی جائے تو بند کلینکس کی چھان بین کر کے فوری طور پر کھولنے کا حکم دیا جائے تاکہ ذہنی کوفت سے بچا جا سکے ، اور خدمت خلق کا تسلسل بھی برقرار رہے ۔محکمہ صحت نے اپنے ہی قوانین بنائے ہوئے ہیں جس کو سمجھنے کے لئے ڈسپنسرز کی مثال ہی کافی ہے۔ ڈسپنسرز لوگ ساری عمر سرکاری ڈسپنسریوں میں عوام کی خدمت کرتے ہیں ۔ نسخہ نویسی، انجیکشن ڈرپس حتیٰ کہ چھوٹے موٹے اپریشن بھی کرتے ہیں تو بہت اچھا مگر ریٹائرمنٹ کے بعد ان پر بھی عطایت کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
دوسری مثال LHW لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہے جن کو محکمہ صحت عام روزے مرہ کی ادویات ، سیرپ اور ٹیکے دیتا ہے۔ اور یہ محلہ میں ڈاکٹرز کے فراہض ادا کرتیں ہیں اور جب یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ریٹائرڈ ہوتی ہے تو پھر اگر یہی پیرا سٹا مول وغیرہ استعمال کرواتی ہے تو عطایت ہے۔ وطن عزیز سے عطایت کے مکمل خاتمہ کے لئے ان بنیادی چیزوں پر غور و غوض کرنے کی درخواست ہے۔
پرائیویٹ ہسپتالوں میں تعینات ہونے والے ورکرز کا مکمل ڈیٹا اور کام کا ریکارڈ لازمی جمع کیا جائے تا کہ آنے والی نسلوں میں عطایت کا سرطان شام نہ ہو سکے۔
وہ تمام ادارے بلخصوص ( ہومیوپیتھی اور حکمت )کی جو تعلیم دیتے ہیں حاضری اور پریکٹیکل کا لازمی ریکارڈ اور سہولیات کا چیک اور بیلنس ہو تاکہ مستند لوگ دوسرے طریقہ علاج کی طرف راغب ہونے سے بچ سکیں۔
اسی طرح ایسے لوگ جن کے پاس کسی ایک شعبہ کی میڈیکل میں تعلیم ہے ان کو بنیادی کورس ( فرسٹ ایڈ ) کی حد تک کروا دیا جائے تاکہ عطایت کا خاتمہ ہو سکے اور یہ لوگ عزت کی دال روٹی کھا کر آپ کو دعائیں دے سکیں ۔کیونکہ میرے سمیت ہر پاکستانی آپ کو نعمت سمجھتا ہے اور واقعی آپ نعمتِ خداوندی ہے۔
غیور پاکستانیوں سمیت حکماء اور ہومیوپیتھک برادری مردِ مجاہد ، قومی مسیحا جناب چیف جسٹس آف پاکستان واجب الحترام جناب ثاقب نثار صاحب اللہ پاک آپ کو دنیا کی طرح آخرت میں بھی اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین