تحریر : عماد ظفر محترم چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب میں اس وطن کا ایک عام سا شہری ہوں. کڑوڑہا افراد کی طرح زندگی کی جنگ میں اپنے اور اپنے بچوں کیلئے جینے کی ضروریات پوری کرتا فقط ایک عام سا شخص. میری زندگی اس وطن میں مختلف ادوار میں مخلتف تماشے دیکھتے گزری ہے. کبھی آمریت نافذ کر کے اعلان فرما دیا جاتا کہ اب وطن میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور کبھی احتساب کے نام پر یہ وعدہ کر دیا جاتا کہ اب بس اربوں ڈالرز جو سیاستدانوں نے لوٹے ان کی جیبوں سے واپس لا کر قومی خزانے کو بھر دیا جائے گا اور پھر راوی چین پی چین لکھے گا. ہر عام پاکستانی کی طرح بہت عرصہ پرفریب نعروں اور وعدوں کے زیر اثر رہ کر جھوٹے خوابوں میں جینے کے بعد اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ وطن عزیز میں صرف اور صرف جمہوریت کے سہارے ہی تمام مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے. مشرف دور میں جب معزز عدلیہ کے ججزـکو نظر بند کیا گیا اور افتخار چوہدری کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا تو ایک شہری اور میڈیا سے تعلق ہونے کے ناطے میں نے بھی وکلا تحریک میں حصہ لیا.ڈنڈے بھی کھائے لیکن جب عدلیہ بحال ہوئی تو یوں لگا جیسے سب تکالیف اور اذیتوں کا ازالہ ہو گیا.
امید اور یقین ہو چلا تھا کہ اب عدلیہ ماضی کی روایات کے برعکس آمروں کا ساتھ دینے یا سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے صرف اور صرف آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے فیصلے صادر کرے گی.یہ امید بھی بندھ گئی تھی کہ اب اعلی عدلیہ ماتحت عدلیہ کو بھی درست کرتے ہوئے عوام کو جلد سے جلد انصاف مہیا کرے گی. لیکن عدلیہ بحال ہوئی تو سوموٹو نوٹس لینے کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا. ہر چھوٹی سی خبر کو جواز بنا کر سوموٹو نوٹس لیا جانے لگا. یہاں تک کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھی بھیج دیا گیا.اس کے برعکس وہ آمر جس نے عدلیہ کو قید کیا تھا اور جس نے آئین پاکستان کو قدموں تلے روند ڈالا تھا اس کو نہ تو کوئی قانون کچھ کہہ سکا اور نہ ہی عدلیہ اس آمر کو کسی بھی قانون کے تحت اس کے جرائم کی سزا دینے میں کامیاب ہونے پائی. یقینا اس میں کوئی مصلحت ہو گی جو معزز عدلیہ بہتر طور پر جانتی ہے.
ایک آمر کو مزے سے بیرون ملک پرتعیش زندگی گزارتے دیکھ کر اور دوسری جانب ایک سابقہ منتخب وزیراعظم کو نااہلی کی سزا بھگتتے دیکھ کر اور موجودہ وزیراعظم کو قانون کے کٹہرے میں دیکھ کر سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ آخر معزز عدلیہ صرف اور صرف سیاستدانوں یا منتخب نمائیندوں کا ہی احتساب کرنے میں دلچسپی کیوں رکھتی ہے اور آخر کیا وجہ ہے کہ آمروں کا احتساب عدلیہ کیلیے ناممکن ہوتا ہے؟ آمروں کو چھوڑیے حال ہی میں چند تازہ کیسز کی ہی مثالیں دیکھ لیجئے. خدیجہ نامہ بچی جسے دن دیہاڑے لاہور کی ڈیوس روڈ پر بہیمانہ طریقے سے خنجر کے پے درپے وار کر کے زخمی کر دیا گیا اور جو معخزاتی طور پر اس حادثے کے بعد بھی زندہ بچ نکلی آج بھی عدالتوں کے دروازے کھٹکھاتی انصاف کی متلاشی ہے لیکن اسے صرف تاریخوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے. لاہور ہائی کورٹ کا ازخود نوٹس بھی اس کی مشکلات میں کمی اور اسے فوری انصاف نہیں دلوا سکا ہے.
سانحہ بحریہ ٹاؤن میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور آپ کی جانب سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کے بعد اس کیس پر مزید کاروائی اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں. زین قتل کیس کا مرکزی ملزم مصطفی کانجو آج بھی آزاد فضاؤں میں گھوم رہا ہے. نیب کے برطرف کیئے جانے والے ایماندار افسران جنہوں نے کرپٹ عناصر سے حقیقت میں لوٹی گئی رقم واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کروائی آج بھی حیرت سے انصاف کے اس دوہرے معیار کو دیکھ رہے ہیں. سپریم کورٹ آف پاکستان کے باہر آپ کو لاتعداد افراد انصاف کے حصول کیلئے دھکے کھاتے دکھائی دیں گے اور ماتحت عدالتوں میں تو لاکھوں افراد کی زندگیاں ہی پیشیاں بھگتتے ختم ہو جاتی ہیں لیکن انہیں انصاف نہیں مل پاتا. میں اپنے جیسے انسانوں کو روزانہ کی بنیاد پر عدالتوں اور کچہریوں کے باہر انصاف کے حصول کی خاطر دھکے کھاتے دیکھتا ہوں .اور شدت حیرت سے سوچتا ہوں کہ اگر عدلیہ کے پاس سیاسی نوعیت کے معاملات سننے کا وقت میسر ہے تو عام آدمی کے مقدمات سننے کا وقت کیوں میسر نہیں ہے.اپنی ماتحت عدلیہ کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کا وقت کیوں میسر نہیں ہے.
احتساب تو عدلیہ نے بھٹو کا بھی کیا تھا اور سزا بھی سنائی تھی لیکن محترم چیف جسٹس صاحب بھٹو آج بھی نظریے کے طور پر زندہ ہے اور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سیاستدانوں کی سیاست اور احتساب کے فیصلے صرف اور صرف عوامی عدالت میں ہوتے ہیں. جہاں ووٹ کی طاقت سے عوام اپنا فیصلہ سناتے ہیں.جناب چیف جسٹسں صاحب اسی نواز شریف کو ہماری ہی اعلی عدلیہ نے ہائی جیکر قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا بھی سنائی تھی اور اسے تا عمر کسی بھی قسم کی سیاست میں حصہ لینے یا عوامی عہدہ رکھنے کیلئے نااہل قرار دیا تھا. لیکن آج وہی نواز شریف اس ملک کا وزیراعظم ہے اور اس کے خلاف دیے جانے والا فیصلے کا نام و نشان تک موجود نہیں ہے.
آپ چیف جسٹس ہیں اور میرے جیسے عام آدمی سے زیادہ باخبر اور باشعور ہیں کیا آپ کی نگاہوں سے یہ حقیقت اوجھل ہے کہ اس ملک میں احتساب کے نام پر منتخب حکومتوں کے تخت الٹ کر یا انہیں کمزور کر کے کون اس کا فائدہ اٹھاتا رہا ہے. نواز شریف عمران خان یا آصف زرداری آپ جسے چاہیں سزا سنائیں لیکن ہمارے لیکن خدارا عدالتی ریمارکس یا فیصلوں میں افسانوی ناولوں کے کرداروں اور اطالوی مافیا کے کرداروں کا ذکر کرنا بند کیجئے. جب ان کرداروں اور مافیا کو آپ منتخب نمائندوں کے ساتھ تشبیح دیتے ہیں تو آپ اس وقت ان کڑوڑوں ووٹرز کے مینڈیٹ کی توہین کر رہے ہوتے ہیں جنہوں نے ان نمائندوں کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجا ہوتا ہے. ایک جانب معزز عدلیہ کے بارے میں کوئی ریمارکس بھی پاس کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے جبکہ دوسری جانب عوام کے منتخب نمائندوں کو پھانسیاں دینا، پائی جیکر قرار دینا یا نااہل قرار دینے سے لیکر انہیں جرائم کی دنیا کے کرداروں سے تشبیہ دینا کسی بھی قسم کی تضحیک یا توہین کے زمرے میں کیوں نہیں آتا؟ صحافیوں لکھاریوں اور عام آدمی تو ویسے ہی توہین کی تلواروں کے سائے تلے زندگی بسر کرتا ہے.
کہیں سے توہین عدالت عائد کی جاتی ہے تو کہیں سے محب الوطنی اور غداری کی اسناد کی تلوار ہمارے سروں پر لٹکا دی جاتی ہے.کہیں مشعال خان جیسے بچے توہین مذہب کی فیکٹریوں کے فتوے کا شکار ہو جاتے ہیں اور کہیں عنبتین جیسی بچیاں توہین غیرت کے جرم میں زندہ جلا دی جاتی ہیں.حضور والا ایک ہی بار مختصر سا سوموٹو لے کر عوام کو یہ بھی بتا دیجئے کہ عوام سوائے فلموں یا سبزیوں پر بحث مباحث کرنے اور صحافی صرف سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کسی بھی قسم کی آرا یا نظریات رکھنے سے پرہیز فرمائیں یا پھر کم سے کم انصاف سے محروم، مسائل کی دلدل میں دھنسی عوام کو کم سے کم آزادی اظہار رائے کا ہی مکمل موقع فراہم کرتے ہو آرٹیکل 19 پر ہی عملدرآمد ممکن بنا دیجئے. آپ سیاسی کیسز شوق سے سنیئے لیکن عوام کےکیسز کو بھی تھوڑا سا وقت عنایت کر دیجئے. عدلیہ کا وقار بلند کرنے کیلیئے واٹس ایپ کے حوالے سے جو اسکینڈل سامنے آیا ہے ازراے کرم اس پر بھی سو موٹو نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی جانچ پڑتال کریں تا کہ اس تاثر کو ختم کیا جا سکے کہ خدانخواستہ معزز عدلیہ کے کچھ جج حضرات کسی سازش کا حصہ ہیں یا کسی ایک فریق کے حق میں جھکاؤ رکھتے ہیں. عدلیہ کا وقار بلند ہو لیکن عوام کے وقار اور مینڈیٹ کی حفاظت کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے.امید غالب ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی اپنی اس ذمہ داری کو ضرور پورا کریں گے.