بہت خوب جی ! ابھی پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے ، ہفتہ ہفتہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں، مگر اِس نے قومی خزانہ بھر نے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے سرکاری وخودمختاراور نجی اداروں کے تنخواہ دار طبقے کی موجودہ ٹیکس اور الاو ¿نسز کی مراعات ختم کرنے کے نام پر جیسی کفایت شعاری اور خو د انحصاری کی پھلجھڑی چھوڑ رکھی ہے، اِس سے تو تنخواہ دار طبقہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے؛ توبہ توبہ کرتا بھاگتاپھر رہاہے ۔کیوں کہ اَب یہ سمجھ رہاہے کہ عمران حکومت کا کفایت شعاری اور خودانحصاری کا سارا نزلہ اِسی تنخواہ دار طبقے پر ہی گرے گا؛اِسے نچوڑ کر ہی خالی پڑاہوا۔ قومی خزانہ وزیراعظم بھریں گے؛یوں تنخواہ دار طبقہ ہمیشہ کی طرح مسائل کی چکی میں پس کر اپنی ہڈی ہی کا سرمہ بنا ئے گا۔جس سے حکومت قومی خزانہ بھر کر اپنا الوسیدھا کرے گی۔
اگرچہ ، اِس سے انکار نہیں ہے کہ ستر سال سے مُلک کا سب سے زیادہ مظلوم تنخواہ دار طبقہ ہے؛جو اپنی آمدن پر ماہانہ ہزاروں کے حساب سے سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس اداکرکے بھی اپنے بنیادی اور آسائش زندگی کے حصول سے محروم ہے ، جس کے حصے میں سِوائے؛ پینے کی پانی کی محرومی ، گلی محلوں میں کھڑے سیوریج کے پانی ، گندگی کے انبار، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بھوک و افلاس کے کچھ نہیں آیاہے۔یقین جانیے کہ مُلک میں ستر سال سے جو بھی حکمران آیا ہے۔اِس نے قومی خزا نہ بھر نے کی ضد میں ہمیشہ تنخواہ دار طبقے کو ہی صدقے کا بکرا سمجھ کر اِس کی ہی بلی چڑھا ئی ہے، یعنی کہ بیچارہ تنخواہ دار وہ طبقہ ہے۔ جس کے گلے پر ہر حکومت میں سب سے پہلے چھری پھیری گئی ہے۔آج بھی حسب روایت نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت بھی تنخواہ دار طبقے کوہی آگے کرکے اِس کی تنخواہوں ،موجودہ ٹیکس مراعات اور الاو ¿نسز میں کمی کرنے سمیت دیگر آسائش زندگی کی سہولیات سے محروم کرنے کے لئے نشانہ بنا ئے گی ۔ پھربڑے فخر سے اپنا سینہ چوڑا کرکے پانچ سال تک دعویٰ کرتی پھرے گی کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے جس تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کفایت شعاری اور خودانحصاری کا علم بلند کیا تھا۔ اِس کے اہداف حاصل ہو گئے ہیں۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں کم ،سرکاری اور نجی ملازمین کی آمدن پر موجودہ ٹیکس مراعات ختم اور ماہانہ الاو ¿نسز بند کرنے کے کفایت شعاری اورخودانحصاری کا پروگرام مرتب کرچکی ہے۔ تو آج بیچارہ مُلک کا بڑاسرکاری اور نجی ملازمین کا تنخواہ دار طبقہ دعا کرے گاکہ اللہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی حکومت کل کے بجائے؛ آج ہی چلی جائے۔
بہر کیف، وزیراعظم عمران خان کچھ بھی ہو جائے ؛مُلک کو سنبھالا دینے کی آڑ میں سرکاری و نجی تنخواہ دار طبقے کی موجودہ ٹیکس مراعات میں ہیر پھیر کر کے اِسے زیادہ یا ختم نہ کریں،آج یہ جیسی بھی ہے ؛تنخواہ دار طبقے کو قبول ہے۔ کیوں کہ گزشتہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے وقت نزع سرکاری اور نجی تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کی مد میں ایمنٹسی اسکیم کے تحت جتنی جھوٹ دی ہے، اِس سے مُلک بھر کے ہر گریڈ کے تمام سرکاری اور نجی تنخواہ دار ملازمین ضرورت سے کہیں زیادہ مطمئن ہیں۔اَب اگر وزیراعظم عمران خان ٹیکس وصولی کو پرا نی والی پوزیشن پر لا ئیں گے ؛ تو یہ تنخواہ دار طبقے کے ساتھ زیاتی ہوگی، جس سے تنخواہ دار طبقے میں حکومت کا بنابنایا مورال مجروح ہوجائے گا۔
چونکہ پہلے ہی تنخواہ دار طبقے کا مائنڈسیٹ مُلک میں تبدیلی کے نعرے سے یکسو ہوگیاتھا۔ اِس لئے تنخواہ دار طبقے نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اچھائی کی اُمید کے ساتھ ووٹ دیئے اور اِنہیں مسندِ اقتدار پر بیٹھادیا؛ آج اگر تنخواہ دار طبقے کو اِس کا علم ہوتا کہ نو منتخب وزیراعظم حکومت بناتے ہی سب سے پہلے اپنے کفایت شعاری اور خود انحصاری کے پروگرام کی پھلجھڑی سے پہلے سے پسے ہوئے؛ تنخواہ دارطبقے کی موجودہ شرح ٹیکس مراعات اور الاو ¿نسز کو ختم کرکے زندہ درگور کرنے کا سامان کریں گے ؛تو شائد عمران خان کو مُلک کا وزیراعظم بننے میں کئی سال مزید لگ جاتے، چلیں ، آج اگر تنخواہ دارباشعور طبقے نے کسی اچھائی کی لالچ میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت پی ٹی آئی کو اپنے ہی پیٹ پر لات مارنے اور اپنے ہی گلے پر چھری پھیرنے کے لئے ووٹ دے کر غلطی کرہی دی ہے ۔اَب اِسے اپنے کئے پر پچھتانا بھی پڑے گا۔
تاہم ، اِس منظر اور پس منظر میں تنخواہ دار طبقہ ، اپنے ہاتھ جوڑ کر محترم المقام عزت مآب جناب چیف جسٹس ثاقب نثا رسے التماس کررہا ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر اِن خبروں اور اقدامات پر فی نوٹس لیں ،جواپنے نو منتخب وزیراعظم عمران خان کے کفایت شعاری اور خودانحصاری کے سو روزہ پروگرام سے پسنے کو ہیں ؛جس کے تحت وزیراعظم سرکاری و نجی تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہیں مہنگائی کی تناسب سے نہ بڑھا کر ، سالانہ آمدن پر موجودہ ٹیکس کی مراعات کی چھوٹ ختم اور دیگر ماہانہ الاونسز بند کرنے کے اقدامات کرکے تنخواہ دار طبقے کو خطے غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے طبقے میں شامل کرناچاہتے ہیں۔
جبکہ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ تنخواہ دار طبقہ اپنی ماہانہ تنخواہ ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی ماہانہ ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں اچھی خاصی ہزاروں اورسالانہ لاکھوں میں رقم FBRمیں جمع کرادیتاہے، مگر اِس کے باوجود بھی یہ طبقہ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ(اورجیسے سوئی کی خریدار ی سے لے کر کفن و قبر تک) کی خریدار پربھی ناقابل واپسی ٹیکس اداکرتاہے۔ چیف جسٹس صاحب،آپ اِس جانب بھی ایسے ہی توجہ دیں؛ آپ نے جس طرح موبائل فونز کمپنیوں سے عام موبائل صارف کے کارڈلوڈ کرانے پر زائدٹیکس کی واپسی کا حکم نامہ صادر فرما کرمُلک میں تاریخ ساز باب کا اضافہ کردیاہے۔ جس سے موبائل صارفین میں نہ ختم ہونے والی خوشی کی لہر دوڑ چکی ہے۔
جنابِ محترم چیف جسٹس صاحب،آج آپ سے مُلک کا بڑاتنخواہ دار طبقہ فریاد کرتاہے کہ وزیراعظم عمران خان کو تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں کم، ٹیکس کی مد میں موجودہ مراعات ختم ، الاو ¿نسز بند کرنے سمیت دیگر سہولیات ختم کرنے کا فی الفور نوٹس لیں۔اِسی طرح حکومت اور FBRکو بھی پابند کریں کہ ایسی پالیسیاں اور پروگرام مرتب کئے جا ئیں کہ مظلوم تنخواہ دار طبقے کی اشیائے خوردونوش اور دیگرآسائش وسہولیات زندگی کی خریدار پر کاٹے گئے ٹیکس کی واپسی کا جا مع منصوبہ مرتب کریں تاکہ تنخواہ دار طبقہ ماہانہ و سالانہ FBRکو ٹیکس دینے کے باوجود ناقابلِ واپسی دُہرے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جائے۔( ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com