اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے رواں ماہ کے اوائل میں کوئٹہ میں پیش آنے والے دہشت گرد واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئندہ ماہ اس کی سماعت شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
آٹھ اگست کو جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں سول اسپتال کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 73 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے جن میں اکثریت وکلاء کی تھی۔
بدھ کو سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے رجسٹرار کے نوٹ پر آئین کی شق 184 )3( کے تحت کوئٹہ دھماکے کا از خود نوٹس لیا۔
بیان کے مطابق رجسٹرار نے اپنے نوٹ میں کہا کہ کوئٹہ واقعے نے پورے ملک بالخصوص بلوچستان میں طرز حکمرانی کی صورتحال پر کئی شکوک کو جنم دیا۔
“جس طرح سے یہ منظم واقعہ پیش آیا اس نے ریاستی مشینری پر سوال کھڑا کر دیا۔ ماضی کے واقعات کے باوجود سیکورٹی انتظامات میں کمی صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس المناک واقعے کو رونما ہونے سے روکنے میں ناکام کو ظاہر کرتی ہے۔”
نوٹ میں مزید کہا گیا کہ انتظامیہ کی طرف سے مناسب سکیورٹی انتظامات کی کمی آئین کی شق نو کے تحت زندگی اور آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں صوبائی دارالحکومت کے اسپتال میں طبی سہولتوں کے نامناسب انتظامات بھی مزید جانوں کے ضیاع کا سبب بنے۔
خودکش دھماکے سے قبل نامعلوم مسلح افراد نے بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتارا تھا اور جیسے ہی ان کی میت کو سول اسپتال منتقل کیا گیا تو یہاں وکلا، میڈیا کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔
اسی اثناء میں خود کش بم دھماکا ہوا جو درجنوں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔ متعدد زخمیوں کو سول اسپتال سے فوج کے زیر انتظام اسپتال بھیجنے کے علاوہ کراچی کے اسپتال بھی منتقل کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے بیان میں کہا گیا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے کو فراموش کر دیا گیا ہے اور ذمہ داران کا سراغ لگانے یا مستقبل میں ایسے کسی واقعے سے بچنے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی جب کہ صوبائی حکومت نے بھی اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیے۔
چیف جسٹس نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان کے چیف سیکرٹری، ایڈووکیٹ جنرل اور پولیس کے سربراہ کو نوٹس جاری کر کے اس مقدمے کی سماعت 20 ستمبر سے شروع کرنے کی ہدایت کی۔
حکومتی عہدیداروں کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی جبکہ اس واقعے کے بعد پاکستانی فوج نے بلوچستان میں کومبنگ آپریشن کا آغاز بھی کر دیا تھا۔
اس مہلک حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے ایک شدت پسند گروپ “جماعت الاحرار” نے قبول کی تھی جب کہ مشرق وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش نے بھی اس میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس واقعے کے خلاف بلوچستان میں وکلا نے عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے سائلین کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے۔