تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم اُمید ہے کہ آپ بھی میری اِس بات سے ضرورمتفق ہوں گے (ٹھیریں اگر نہیں ہیں تو ایک بار ذراضروراپنی دماغی کیفیت کا بھی جائزہ لے لیجئے گا کہ ) گزشتہ ساڑے چار سالوں کے دوران با لخصوص اور سترسالوں کے عرصے میں با لعموم جمہوراور جمہوریت کی اُڑھنی میں لپٹے سِول حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن سے کمبل کی طرح چمٹے افسرشاہی نے پاکستان اور قوم کو بہت مایوس کیا ہے آج تب ہی ساری پاکستانی قوم اپنامسیحا اور نجات دہندہ اعلیٰ عدلیہ اورافواج پاکستان کو سمجھ رہی ہے اور اپنے ہر مسائل کے حل کے لئے اِن دونوں اداروں کی جا نب دیکھ رہی ہے اُمید ہے کہ یہ ادارے پاکستا نی قوم کو پارلیمنٹ کی طرح مایوس نہیںکریں گے اور اگر پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی مُلکی ایوانوں کی طرح قوم کے مسائل اور پریشانیوں کے حل سے منہ پھیرا اور کنی کٹا کر نکلنا چاہا تو پھر مایوسیوں میں ڈوبٹی قوم کو سِوا ئے سُرخ انقلاب کے پھر کو ئی دوسری راہ سُجھا ئی نہیں دے گی، آج قوم کی اُمیدیں اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج سے بہت زیادہ لگی ہوئی ہیں کہ یہی دونوں ادارے قوم کو سول حکمرانوں کی پھیلائی کو ئی مایوسیوں سے نکالیں گے اور قوم میں زندگی کی رمق پیداکریں گے۔
جیساکہ پچھلے دِنوں لاہورہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے عزت مآب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثارنے کہاکہ” مُلک میںصرف آئین و قا نون کی حکمرانی رہے گی، وکلا ءکی ڈیڑھ لاکھ فوج عدلیہ کے پیچھے ہے ،ہم خو د سے اپنی نسل اور قوم سے عہد کرتے ہیںکہ عدلیہ جمہوریت کی محافظ ہے ہم جمہوریت کو پامال نہیں ہو نے دیں گے اور اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گی، کسی کے کچھ کہنے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا،اگر ہم اِس عہد سے پھریںتو قوم کا ہاتھ اور ہمارا گریبان ہوگا،عدلیہ مکمل آزاد اور فتنہ ختم کرنے والاادارہ ہے، جج کو مرضی کے فیصلے کاا ختیار نہیں ، لوگوں پر ظلم ہورہاہے، شہریوں کے حقوق دبالئے جا تے ہیں،جج دادرسی نہیں کریں گے تو انصاف معاشرے میں قا ئم نہیں رہ سکتاہے، ایک سال کے لئے سب ایمانداری سے کام کریں، حالات بدل جا ئیں گے، مُلک و قوم کی ترقی کے لئے تعلیم یافتہ ایماندارقیادت ملی تو لوگوں کی زندگیاں بدل جا ئیں گی“آج پاکستان قوم کو اپنے موجودہ عزت مآب چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے عزم سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں اور قوم چاہتی ہے کہ یہ اپنے عزم کو مُلک اور قوم کی بہتری کے خاطر جلد از جلد حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنائیں اگر اِس حوالے سے اِنہیںپاکستانی قوم کی مدد بھی درکار ہو ئی تو پوری قوم چیف جسٹس کے ساتھ شا نہ بشا نہ کھڑی ہوگی۔،
اِس سے انکار نہیں کے پارلیمنٹ جیسے عوامی خدمت کے دعویدار اداروں پر سے عوام کا اعتماد اور اعتبار ختم ہوچکاہے ایسا کیوں ہوا ہے؟ اِس سے متعلق تما م تفصیلات سے سب ہی خوب واقف ہیں آ ج اِس سے انکار نہیں اوراِس میں کو ئی دورائے نہیںہے کہ مُلک میںسِوائے افواج پاکستان اور عدلیہ کے کو ئی بھی ادارہ ایسا نہیںہیںجو مُلک اور قوم کے ساتھ مخلص ہوں اور اپنی خدمات مُلکی اور قومی خدمات سمجھ کر اداکررہاہوموجودہ حالات اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جا ئے تو جمہوراور جمہوریت کے لبادے میں سِول حکمرانوں اور سیاستدانوں نے پاکستان سمیت دنیا کے کو نے کونے میں بسنے والے ہر پاکستانی کو سخت مایوس کیا ہے تب ہی پاکستانی قوم کو اپنے بنیادی حقوق اور روزمرہ کی ضروریات زندگی کی سہولیات کے حصول کے خاطر افواج پاکستان اور عدلیہ کا دروازہ کھٹ کھٹاناپڑرہاہے، اِس لئے کہ آج قوم کو اِس بات کی پکی اُمید ہے کہ اَب یہی دوایسے ادارے ہیں جواِن کے بنیادی حقوق اور ضروریاتِ زندگی کی سہولیات کو غاصب اور قا بض سِول حکمرانوں ، سیاستدانوں اور چمچہ گیر بیوروکرٹیس کے چنغل سے دلاسکتے ہیں سو اِس اُمیدو حسرت کے ساتھ پوری پاکستا نی قوم افواج پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ سے مدد مانگ رہی ہے تواَب اِس پر سِول حکمرانو، سیاستدانوں اور خوشامدی اور چمچہ گیر افسرشاہی کو پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ سے خائف ہونے کی ضرورت سے زیادہ اپنے اپنے چارسالہ سیادہ کرتوتوں اور اعمال کا بھی جا ئزہ لیتے ہوئے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چا ہئے کہ اِن فتنہ پروروں نے ساڑھے چار سالوں میںقوم کو بھول کر اپنا سوچا اور مُلک اور قوم کو بحرانوں ، پریشا نیوں اور مشکلات کی کھا ئی میں دھکیل کر قومی خزانہ اپنی ذات اور اپنے خاندان اور اپنے اِدھر اُدھر کے چیلے چپاٹوں کے اللے تللے کے لئے اپنے اَبا جی کی جاگیر سمجھ کر استعمال کیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کاا رشاد ہے کہ ” جب عدل طاقتوروں کا سہارا بن جا ئے تو معاشرہ برباد ہوجاتا ہے “بیشک ، جس معاشرے میں اِنصاف نہ ہو وہاں ظلم کی سیا ہ رات کے لمبے ڈیرے چھائے رہتے ہیں،اور اُجا لے اور روشنی کی کرن روٹھ کر میلوں دور چلی جا تی ہے ،کو ئی اِنصاف اور عدل کا چراغ جلانے والابھی نہیں ہوتا ہے کیوںکہ طاقتورچوراور لیٹرے اندھیروں کا فا ئدہ اُٹھاکر لوٹ مارکررہے ہوتے ہیں یکدم ایسے جیسے کہ آج 21ویں صدی میں ایٹمی مُلک پاکستان میں جا بجا ہورہاہے مگر اَب مملیکت پاکستان کے بیس ، بائیس کروڑ عوام کو ظلم کی سیاہ رات کی مایوسی کے اندھیروں سے نکال کراِنصاف اور عدل کے حصول کی اُمیدکی کرن اور روشن چراغ تھمانے کے لئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاںثاقب نثار کی صورت میں ایک نڈراور بہادر سپوت مل گیاہے جو اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں سے بہت جلد مُلک میں حقیقی عدل و اِنصاف کا بول بالا کردے گااورکرادے گا اور مُلک اور قوم کو عدل و اِنصاف کی روشن راہ پر گامزن کردے گا جہاں صرف عدل و اِنصاف کے اُجالے ہی اُجا لے ہوں گے پھر کو ئی عدل و انصاف پر قدعن لگا نے اور اِسے سپوتاژ کرنے والاکو ئی نہیں ہوگا۔
بہر کیف، ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انسانوں میں صبروبرداشت کی حد ختم ہوئی تویہ بے لگام ہوگئے ہیں اور جب اِنسان شیطان کا روپ دھارلیتے ہیں توچارسو فتنے جنم لے لیتے ہیں،اوراِسی طرح جب ادارے بھی اپنی حدود سے تجاوز کرجا ئیں اور بے لگام ہو جا ئیں تو فتنے بھی بے لگام ہوجایاکرتے ہیںکہاجاتاہے کہ اِنصاف کی ایک گھڑی اِنسا ن اور اِنسا نوں کی برسوں کی عبادت سے بہت بہتر ہے اور جس معاشرے اور سوسائٹی میں انصاف نہیں ہوگااِس میں کبھی استحکام نہیں آسکتاہے،اِنصاف یہ نہیں ہے کہ خیال پر فیصلہ کردیاجائے بلکہ اصل انصاف تو یہ ہے کہ حقا ئق اور شواہد کو مدِنظر رکھ کراِنصاف کیا جا ئے،زمانوں کی تاریخ کی کتاب کے ابواب ایسے اِنصاف اور عدل سے بھرے پڑے ہیں جن میں ہمیں اِنصاف اور عدل کرنے والوں کے حقائق اور شواہد پر مبنی جہاندیدہ اِنصاف اور عدل کے فیصلے پڑھنے اور عمل کرنے کو ملتے ہیں ،حضرت بایزید بسطامی ؒ ایک جگہہ فرما تے ہیں کہ” عدل کے بغیر مُلک ویران اوراُجاڑ ہوجاتے ہیں“یعنی کہ جن معاشروں میں عدل نہیں وہاں قبرستان سے زیادہ ویرانی ہوتی ہے(جیسے یعنی کہ 28جولائی 2017ءسے پہلے تھی)، گویاکہ اِنسا نوں کو یہ نکتہ سمجھ لینا چا ہیے کہ عزت اور حشمت اِنصاف ہی میں مضمر ہے،عدل کے معنی اور مفہوم کے اعتبارسے اہلیانِ دنیااور دانشورانِ اَرض کا قوی خیال یہ ہے کہ” عدل کے معنی ہیںبرابرکرنا، متوازن کرنا ، تیرکو سیدھا کرنا،کسی چیر کو اِس طرح تقسیم کرنا کہ کسی فریق کو بھی ذرہ برابرکم یا زیادہ نہ ملے، یعنی کہ حق دار کو مکمل حق ملے۔(ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com