اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں پر ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے اور اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ٹاسک ہوگا۔
چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی۔
آج سماعت کے آغاز پر رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‘آرٹیکل 62 اور 63 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں’۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘اگر 62 ایف کے تحت عدالت کسی کو غیر ایماندار قرار دے تو نااہلی کی مدت کیا ہوگی’۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ‘ایک ایسا شخص آیا تھا جس نے عدالت میں تسلیم کیا کہ اس کی ڈگری جعلی ہے، اس شخص نے استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑا اور ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لیے’۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘غیر ایماندار ڈکلیئرڈ شخص کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ ‘
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ‘نااہلی کی مدت ڈکلیئریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی’۔
عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیئے کہ ‘آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال ہونی چاہیے’۔
جس پر جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ’18ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی؟’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘ہماری نظر میں آرٹیکل 62 اور 63 آزاد اور الگ الگ ہیں، جب تک ڈکلیئریشن موجود رہے گی تو نااہلی موجود رہے گی’۔
رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‘آرٹیکل 62 ون ایف میں ابہام ہے، واضح نہیں کہ ڈکلیئریشن کون سی عدالت دے گی’۔
عاصمہ جہانگیر کا مزید کہنا تھا کہ ‘پارلیمنٹ اب تک آزاد نہیں، 1985 تک کسی رکن کی نااہلی کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری نہیں تھا’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ان کے موکل رائے حسن نواز کو کمپنی میں اثاثے نہ بتانے پر نااہل کیا گیا جبکہ کمپنی کا اثاثہ فروخت ہوچکا تھا اور کمپنی ان کے نام بھی نہیں تھی’۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ‘جو کام پارلیمنٹ نے نہیں کیا، وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے، سیاسی معاملات پر فیصلہ سازی پارلیمنٹ کو کرنی چاہیے’۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘یہ تاثر درست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں’۔
جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ ‘فرض کرلیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے، عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے کرسکتی ہے’۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کسی مبہم آرٹیکل کی تشریح کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟’
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ‘عدالت ایمانداری کا تعین کرسکتی ہے، بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایماندار کیسے ہوجائے گا’۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‘عدالت ٹھوس سوالات حل کرسکتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا سوال ٹھوس ہے؟’
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے تسلیم کرتے ہیں، اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ٹاسک ہوگا’۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ‘ممکن ہے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کریں، پھر اس صورت میں کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جائے’۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ‘یہ ادارہ قائم دائم رہے گا اور اس ادارے میں بہت سمجھدار لوگ آئیں گے’۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ‘اب اس مقدمے میں کسی اور کو نہیں سنیں گے، پیر کو اٹارنی جنرل دلائل دیں’، جس کے بعد کیس کی سماعت 12 فروری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
گذشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ ‘یہ عدالت کی صوابدید نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے نا اہلی کی مدت کا تعین کرے، ایک معیار ہونا چاہیے’۔
واضح رہے کہ 6 فروری کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے جواب میں عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا تھا کہ ‘کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے’۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔
دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔
اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔
ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔