چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار عدلیہ کی تاریخ میں تاریخی کردار ادا کرتے ہوئے کام کررہے ہیں خاص طور پر کرپشن کیخلاف کیے گئے اقدامات عوامی حلقوں میں بہت زیادہ سراہے جارہے ہیں۔ان کی کارکردگی یقینی طور پر قابل تعریف ہے کیونکہ عدالتی امور سے ہٹ کر بھی وہ کئی ایسے کام کررہے ہیں جو حکمرانوں کو کرنے چاہیے تھے لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک میں برسراقتدار لوگوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام نہیں دیں یہ لوگ حکمران بن کر عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرنے کی بجائے اپنے مفادات پورے کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیںیہ لوگ پاکستان میں اپنا مفاداتنا ہی سمجھتے ہیں کہ انھوں نے یہاں کے عوام کو چھوٹے نعروں سے ورغلا کر اور سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے ہیں اور یہاں حکومت کرنی ہے۔یہ حکمران اقتدار کے بل بوتے پر لوٹ مار کرکے ساری دولت بیرونی ممالک میں جمع کرتے ہیںانھوں نے اپنے کاروبار اور جائدادوں تک دوسرے ملکوں میں بنا رکھی ہیں یہ لوگ اپنا علاج بیرونی ممالک کے بڑے ہسپتالوں میں کراتے ہیں ان کے بچے بھی دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک اس وقت بیشمار مسائل سے دوچار ہے۔یقینی طور پر بہت زیادہ مسائل ہیں جن کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اوران پر جناب چیف جسٹس صاحب کام بھی کررہے ہیں۔لیکن ایک نہایت اہم شعبہ تعلیم کا ہے جس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تعلیم نہایت ہی اہم ہی ہوتی ہے۔پاکستان میں تعلیم جیسا اہم ترین شعبہ بیشمار مسائل میں گھرا ہوا ہے ضرورت تو اس امر کی تھی ملک میں تعلیم کے شعبے کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اسے ترقی دی جاتی ۔اور اسے ہر حکومت اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتے ہوئے شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے زیادہ سے فنڈز خرچ کیے جاتے تاکہ ہمارے بچے بہترین زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کی ترقی کے لیے دنیا کا مقابلہ کرتے۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر حکومت نے اہم ترین شعبہ تعلیم کو بری طرح نظرانداز کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ تعلیم کی مد میں قومی بجٹ کے اندر بہت ہی معمولی رقم رکھی جاتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار دنیا کے مقابلے میں بہت ہی نیچے ہے۔
اچھی تعلیم حاصل دلانے کے لیے بیرونی ممالک کے تعلیمی اداروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہوتا حکمران ملک میںاچھے تعلیم ادارے قائم کرنے کی بجائے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے ممالک میں بھیجتے ہیں۔اس وقت ملک میں تعلیم کے کئی نظام اور مختلف نصاب ہیں۔سرکاری سکولوں اور کالجز کا تعلیمی نظام نجی تعلیمی اداروں سے مختلف ہوتا ہے ۔امیروںاور غریبوں کے بچے مختلف نصاب اور نظام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس طرح تعلیم کی ابتداسے ہی قوم کے بچوں میں تفریق پیدا ہوجاتی ہے۔کہ یہ امیروں کے بچے ہیں جنھوں نے اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بڑے عہدے حاصل کرنے ہیں اور غریبوں کے کے بچوں نے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے معمولی ملازمتیں حاصل کرنی ہیں ۔سب سے بڑی قباحت جو شعبہ تعلیم میں مختلف نصاب اور دوہرے نظام سے پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ غریب لوگوں کے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہونے کیساتھ قوم میں تفریق اور تقسیم پیدا ہوتی ہے جو پاکستان کے لیے کسی بھی طور فائدہ مند نہیں بلکہ یہ ہر لحاظ سے ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کو چاہیے کہ وہ جہاں بہت سارے بڑے اہم کام کررہے ہیں وہاں شعبہ تعلیم کی طرف بھی توجہ دے کر اس کی بہتری کے لیے اقدامات کریں خاص طور پر ملک کے اندر تعلیم کا نظام اور نصاب ایک بنادیں تو یہ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا جسے ملک یک تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔کیونکہ ملک میں تعلیم عام ہوجائے۔تعلیم کا معیار بہتر ہو اور ملک بھر میں جدید تقاضوں کیمطابق یکساں قومی تعلیمی نصاب ہو تو اس سے قوم میں تقسیم اور تفریق پیدا ہونے کی بجائے اتحاد پیدا ہو گا اور معیاری تعلیم کی بدولت ملک ترقی اور خوشحالی منزلیں طے کرکے دنیا کا مقابلہ کرسکتا ہے۔امید ہے جناب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب اس اہم ترین قومی مسئلے کی جانب توجہ دے کر کاروائی کریں گے۔