قوم کی امیدیں اس وقت جس سے وابستہ ہیں وہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار ہیں۔ اور ان کا نعرہ ہے کہ “احتساب کیلئے تیار ہو جائیں ” ۔ اور اپنے اس طرح کے بیانات کی وجہ سے ہی عوام میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔احتساب قوم کے ہر فرد کی خواہش ہے ۔ اور احتساب کی جس نے بھی اس ملک میں بات کی عوام نے اس کو عزت دیتے ہوئے سرآنکھوں پر بٹھایا ۔ اس کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے اس کو اپنی دعاؤں میں شامل کرتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے سابقہ آرمی چیف راحیل شریف کی مثال ہمارے پاس ہے۔
پاکستانی عوام نے اتنی زیادہ عزت کسی آرمی چیف کو نہیں دی جتنی راحیل شریف کو دی ۔ سوشل میڈیا پر شکریہ راحیل شریف کا ٹرینڈاس کا ثبوت ہے۔ لیکن دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خاتمے کے وعدے ہی وعدے رہے ۔ عوام کو جتنی امیدیں ان سے تھیں وہ امیدیں خواہش ہی بن کر رہ گئیں۔
چیف جسٹس عوام کو انصاف پہنچانے کیلئے اب تک کئی سوموٹو ایکشن بھی لے چکے ہیں ۔ صاف پانی کی بات ہو یا ہسپتالوں کی حالت زار ہو ۔ حکومتی دہشت گردی کا شکار سانحہ ماڈل کے لواحقین ہوں یاقصور کی معصوم زینب کے انصاف کی بات ہو، چیف جسٹس نے سب پر ایکشن لیتے ہوئے عوام میں ایک ہمدرد انسان بن کر سامنے آئے ہیں۔ لیکن اگر عوام کی حالت دیکھی جائے تو وہ آج بھی صاف پانی سے محروم ہیں۔
علاج کیلئے ہسپتالوں میں خوار ہو رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والی تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد چیف جسٹس کے وعدے پر انصاف کی منتظر ہے ۔ معزز چیف جسٹس نے بے شک اپنی نیک نیت کے تحت یہ سب اقدام کیے ہیں لیکن کیوں کہ اس پر عمل درآمد تو اس نظام کے محافظ بیورکریٹس نے کروانا ہے جس کے سامنے چیف جسٹس بھی بے بس نظر آتے ہیں
چیف جسٹس اور عدلیہ کی طرف سے جاری کیے جانے والے احکامات کے سامنے اشرافیہ کے مقرر کیے گئے افسران ایسی ایسی روکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں کہ عدلیہ کے احکامات ہوا میں اُڑا دیے جاتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں حالیہ عائشہ احد کی درخواست پر حمزہ شہباز کے خلاف مقدمہ کے انداراج کا حکم دیا گیا ۔ مقامی تھانے میں FIR تو درج کر دی گئی ہے۔ مگر حمزہ شہباز اور باقی ملزمان کی ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ بلکہ ملزمان کو قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔
جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو شائع کرنے کا حکم دیا گیا مگر ابھی تک وہ رپورٹ مکمل طور پر نہ تو شائع کی گئی اور نہ ہی سانحہ ماڈل کے لواحقین کو مہیا کی گئی۔ نجفی رپورٹ میں حلفیہ بیانات کی کاپی حاصل کرنے کیلئے دوبارہ سے درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ کرپٹ نظام کی جڑہیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ پاکستان کے اعلی ادارے بھی ان کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ عدالتوں میں مقدمات کی اتنی بھرمار ہے کہ وہ ایک کیس پر فیصلہ سنانے کے بعد دوسرے مقدمات میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ کیے گئے فیصلہ جات پر عمل درآمدکا فالو اپ ان کیلئے ممکن ہی نہیں رہتا۔
اس وقت ملک کسی سیاستدان یا کسی آرمی جنرل کے ہاتھ میں نہیں بلکہ پاکستان کے موجودہ اور سابقہ ججوں کے ہاتھ میں ہے ۔چیف جسٹس ثاقب نثاراعلی عدلیہ اور نگران حکومت میں ریٹائرججوں کی شمولیت کی وجہ سے مکمل بااختیار ہیں ۔ یہ موقع ہے کہ چیف جسٹس اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کو قائم کر سکتے ہیں۔ عوام سے کیے گئے احتساب کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے پاکستان کی عوام کے سامنے سر خرو ہوں گے۔