اسلام آباد (جیوڈیسک) پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہو گا، وزارت اعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کے عثمان بزدار اور مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
عثمان بزدار اور حمزہ شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جنہیں منظور کرلیا گیا ہے۔
ارکان اسمبلی خفیہ رائے شماری کے بجائے دو واضح حصوں میں تقسیم ہو کر نئے قائد ایوان کا چناؤ کریں گے۔
پنجاب اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کا عمل صبح 11 بجے شروع ہوگا۔ ارکان دو الگ الگ دروازوں سے ایوان میں داخل ہو کراپنے امیدوار کی حمایت کا اظہار کریں گے۔
دروازے پر ہی ارکان کی گنتی کی جائے گی اور اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی فیصلے کے خلاف کسی دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے گا تو پارٹی سربراہ اسے نااہل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجنے کا حق رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار کیلئے اسمبلی کے کل 371 ارکان کی سادہ اکثریت یعنی 186 ارکان کی حمایت حاصل کرنا لازم ہوگی۔
کوئی امیدوار مطلوبہ حمایت حاصل نہ کر سکے تو وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے دوبارہ پولنگ کروائی جائے گی۔
دوسری بار امیدوار اگر ایوان میں حاضر ارکان کی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ وزیراعلیٰ کے منصب کے لیے منتخب ہو جائے گا۔
تحریک انصاف نے 119 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، 29 آزاد اراکین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، خواتین کی مخصوص 33 اور اقلیت کی 4 نشستیں حاصل کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 179 ہو گئی ہے۔
مسلم لیگ ن نے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی 129 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، ایک آزاد رکن ان کے ساتھ شامل ہوا، خواتین کی 30 اور 4 اقلیتی نشستیں ملنے کے بعد ن لیگ کے اراکین کی تعداد 164 ہو گئی۔
مسلم لیگ ق نے 7 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ایک آزاد رکن کے شامل ہونے کے بعد ان کے اراکین کی تعداد 8 ہو گئی اور خواتین کی دو مخصوص نشستیں ملنے کے بعد یہ تعداد 10 ہو گئی۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب سے 6 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور خواتین کی ایک نشست ملنے کے بعد ان کی تعداد 7 ہو گئی۔
پنجاب اسمبلی سے ایک آزاد امیدوار پاکستان راہ حق پارٹی میں شامل ہوا جب کہ 4 آزاد اراکین کسی کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔
پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ تین حلقوں کے نتائج زیر التواء ہیں۔