تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاک فوج میں احتساب کا عمل شروع کرکے ایک نئی روایت کا آغاز کرتے ہوئے سیاست دانوں بالخصوص حکومتی ایوانوں کے کورٹ میں بال پھینک دی ہے اس نئی منفرد اور انوکھی مثال نے سیاست میں ایک ہل چل کا سامان پیدا کر دیا ہے جیسے جیسے سورج کی گرمی اب اپنا رنگ جمانے لگی ہے اسی طرح آرمی چیف کے بیان اور پاک فوج میں احتساب کے عمل سے پاکستانی سیاست میں تلاطم پیدا ہونے کے امکان ہیں ملک عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے اپنے ہی محکمے میں کرپشن کیخلاف اقدامات شروع کرنے کے حق میں شہریوںنے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالنی شروع کر دیں سیاست دانوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے آرمی چیف کے اپنے ادارے سے خود احتسابی عمل کو خوب سراہا ہے جہاں دیگر سیاست دان پریشانیوں کے ساتھ نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں وہاں اقتدار کے سنگھاسن میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی نئی صورت حال سے پریشان دکھائی دیتے ہیں پاناما لیکس سے حکومت خاصی پریشان دکھائی دیتی ہے حکومت سے باہر بیٹھے لوگ گرینڈ اپوزیشن بنانے کی تیاریوں میں ہیں اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں خود حکومتی وزراء بھی حالات کو خراب کرنے میں برابر کے شریک ہیں آرمی چیف کے احتسابی عمل اور پاناما لیکس نے حکومت کو دفاعی پوزیشن پہ لاکھڑا کیا ہے وزیر اعظم کو ہنگامی طور پہ دو مرتبہ قوم سے خطاب بھی کرنا پڑا
قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہاوطن کی مٹی سے مجھے عشق ہے عوام نے اعتماد کر کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بنایا۔ سیاست میں قدم رکھے کم و بیش مجھے 30 برس ہو چکے ہیں جب مجھے پاکستان سے جلا وطن کیا گیا وہ سب سے تکلیف دہ وقت تھا۔ انہوں نے کہا میری ذات پر کسی قسم کا الزام نہیں اقتدار کی ہوس میں ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیںخود کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں۔ ہمارے تمام اثاثوں کی تفصیل انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں موجود ہیں۔
Tax
اس وقت سے ٹیکس دے رہے ہیں جب کچھ لوگوں کو ہجے بھی نہیں آتے تھے۔ جھوٹ کو ووٹ کی طاقت سے شکست دی اور پاناما لیکس الزامات پر مشرف دور میں بھی تحقیقات ہو چکی ہیں اگر پاناما لیکس کا الزام سچ ثابت ہوا تو گھر چلا جاؤں گا۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں عمران خان کو بھی آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے پارلیمنٹ پہ حملے کا طعنہ دے ڈالا حالانکہ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے میاں صاحب یہ بات بھول گئے کہ خود انہوں نے بھی اپنے اقتدار کے نشہ میںعدلیہ پہ حملہ کیا تھا تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیںکہ حکمرانوں کے جانے کے دنوں میں ان کی زبان سے نکلے ہوئے جملوں میں غور و فکر اور مشاہدہ کریں تو بہت کچھ سمجھنے کو ملتا ہے
”یہ کرسی بڑی مضبوط ہے”
”یہ حکومت جانے والی نہیں ”
”ہم اپنی مدت پوری کریں گے”
”ہم جانے والے نہیں ہیں”
”یہ وردی میری کھال ہے”
مندرجہ بالاوہ جملے ہیںجو حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے نشہ میں منہ سے نکالے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خود اقتدار کے ایوانوں سے نکلے یا نکالے گئے اور اب وزیر اعظم نے بھی قوم سے جوش خطاب میں کہہ دیا ”ہم گیڈر بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں ”ارے میاں صاحب جب آپ گیڈر بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں توپھر قوم سے خطاب کے دوران پ کی زبان آپ کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی تھی ، کیوں آپ دفاعی پوزیشن پہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں جب آپ کو اقتدار کی ہوس نہیں تو پھر اپنی پارٹی کے کسی بھی سینئر رہنماء کو وزیر اعظم بنا کر احتساب کے لئے پیش ہونے سے کیوں ہچکچا ہٹ محسوس کر رہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا عوام کو گیڈر بھبکیوں کی باتیں سنانے کی بجائے دیگر ممالک کے و زراء اعظم کی طرح مستعفی ہوکر اپنے پہ لگائے جانے والے پاناما لیکس کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے نئی مثال اور روایت قائم کی جاتی،کون گیڈر بھبکیوں سے ڈرتا ہے” پانامالیکس” سے کس کس سیاست دان کے ” پاجامے” اترنے والے ہیںتھوڑا انتظار کیجئے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا