لاہور (جیوڈیسک) قومی کرکٹ چیف سلیکٹر کے جوا خانے جانے سے طوفان برپا ہو گیا۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے بتایاکہ ویسٹ انڈیز کیخلاف ورلڈکپ میچ سے 2 روز قبل کرائسٹ چرچ میں ایک پاکستانی جوڑے نے معین خان کی کسینو میں ویڈیو بنائی، ہمیں بے پناہ تشویش ہوئی کہ ٹیم کی کارکردگی پر ملک میں تہلکہ مچا ہوا ہے، ایسے میں ایک ذمہ دار آفیشل اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہے؟ البتہ سابق کپتان کو فوری طور پر پاکستان نہیں بلایا جارہا،انکوائری شروع کردی، منگل کو مکمل حقائق سامنے آنے کے بعد مشیروں سے بات کرکے ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔
جوا خانے میں جانا کوئی مناسب بات نہیں،اگر معین قصوروار پائے گئے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سخت جان حریفوں سے میچز کے بجائے تنازعات کا ورلڈکپ کھیلنے میں مصروف ہے، کرکٹرز نے سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط کرنے سے انکار کیا، سمجھا بجھا کر معاملہ ٹھنڈا کیا گیا،انجرڈ حفیظ کو بحالی فٹنس کے روشن امکانات کے باوجود وطن واپس بھجوا کر ناصر جمشید کو روانہ کرنے کا فیصلہ بھی متنازع بن گیا، بھارت کیخلاف افتتاحی میچ سے قبل8پلیئرز کو ٹیم کرفیو توڑنے کے الزام میں 230 امریکی ڈالر فی کس جرمانہ عائد کیا گیا۔
اسکواڈ کے ہمراہ بطور منیجر موجود نوید اکرم چیمہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پلیئرز مقررہ وقت سے 45 منٹ کی تاخیر سے سڈنی میں ہوٹل پہنچے تھے،بعد ازاں رپورٹس سامنے آئیں کہ پریکٹس سیشن کے دوران فیلڈنگ کوچ گرانٹ لیوڈن اور سینئر پلیئرز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس پر غیر ملکی آفیشل نے استعفے کی دھمکی بھی دیدی، ناخوشگوار واقعات اورشکستوں کا سلسلہ تھما نہیں تھا کہ پیر کو ایک اور خبر دلبرداشتہ شائقین کے دلوں پر بجلی بن کر گری، کرائسٹ چرچ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق قومی ٹیم ایک طرف ویسٹ انڈیز کیخلاف میچ میں کامیابی کی دعاؤں میں مصروف تھی تو دوسری جانب معین خان ایک جوا خانے میں موجود تھے۔
پی سی بی ذرائع کے مطابق سابق کپتان سے وضاحت طلب کر لی گئی جبکہ معین خان نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی سے فون پر بات ہوئی لیکن شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا،ان کا ایک بیان یہ بھی سامنے آیا کہ کھلاڑیوں کو چیک کرنے کیلیے گیا تھا۔ یاد رہے کہ معین خان ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم کے منیجر اور چیف سلیکٹر دونوں عہدوں پر کام کر رہے تھے لیکن شہریارخان کا کہنا تھا کہ کسی ایک عہدے کا انتخاب کرنا ہوگا،چند روز تک ضد پر اڑے رہنے کے بعد معین خان اس شرط پر منیجر کی پوسٹ سے ہٹنے پر تیار ہوگئے کہ انھیں قومی اسکواڈ کے ساتھ ورلڈکپ میں بھیجا جائے گا۔ اس پیش رفت پر تمام حلقوں نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی موجودگی کو کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کے درمیان تنازعات کی وجہ قرار دیا تھا۔
چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے پیر کو لاہور میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ آج ہی مجھے معلوم ہوا کہ معین خان ویسٹ انڈیز کیخلاف میچ سے2روز پہلے کرائسٹ چرچ کے ایک کیسینو میں گئے، ایک پاکستانی جوڑے نے انکی ویڈیو بناکر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی ہے۔ اس حوالے سے خبریں موصول ہونے پر مجھے انتہائی تشویش ہوئی کہ ٹیم ہار رہی ہے، کارکردگی پر ملک میں تہلکہ مچا ہوا ہے،وہ ایسی صورتحال میں کیسینو کیسے جا سکتے ہیں؟ معین خان کا کہنا ہے کہ وہ کھانا کھانے گئے تھے، ہم بھی فوری طور پر چیف سلیکٹر کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کررہے، نہ ہی ان کو وطن واپس بلایا جارہا ہے۔ جب تک حقائق سامنے نہیں آتے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
شہریار خان کا کہنا تھا کہ پی سی بی نے انکوائری شروع کردی ہے، جلد حقیقت سامنے آجائیگی جس کے بعد اپنے مشیروں سے بات چیت کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا، میرے خیال میں کیسینو میں جانا کوئی مناسب بات نہیں، اگر وہ قصوروار پائے گئے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور ہوگی۔ شہریارخان نے کہا کہ معین خان نے یہ نہیں کہا کہ وہ کھلاڑیوں کو چیک کرنے وہاں گئے تھے،پی سی بی نے چیف سلیکٹر کو اس کا نہیں کہا تھا، یہ فرض نہیں کرلینا چاہیے کہ سابق کپتان وہاں جوا کھیلنے ہی گئے تھے۔معین خان کو بلاجواز ٹیم کیساتھ رکھنے کی مجبوری کے سوال پر شہریار خان نے کہاکہ ہماراخیال تھا کہ چیف سلیکٹر کی حیثیت سے ان کا ساتھ رہنا سود مند ثابت ہوگا۔