تحریر : ریاض احمد مغل میں کون ۔۔۔۔عامل تو کون ۔۔۔۔معمول عامل۔۔۔۔جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا۔ معمول۔۔۔۔ بتلائوں گا عامل۔۔۔۔ گھوم جا معمول ۔۔۔۔گھوم گیا عامل۔۔۔۔ کیا دیکھ رہا ہے معمول ۔۔۔۔اک اک کمرہ تے دو دو باریاں پیری پاکے پنجیباں ماراں میں اڈاریاں میں پباں بھار ٹردی پھراں میں چھم چھم نچدی پھراں عامل۔۔۔۔۔بچہ! کیا تو نے پرستان میں پرویز مشرف کی طرح ہزاروں کنال رقبہ چک شہزاد ،میاں برادران کی طرح رائے ونڈ ،عمران خان کی طرح بنی گالا یا آصف علی زرداری کی طرح سرے محل کی طرز کے محلات تو نہیں بنا لئے، کیا ماجرا ہے؟ معمول۔۔۔۔۔استاد جی! میں نے کوئی محلات نہیںبنائے بلکہ میں تو میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتی باریوں کی بات کررہا ہوں ، کیونکہ پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف نے لندن پلان کے تحت میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے اڑھائی اڑھائی سال کی باریوں پر متفق ہوئے ،اب تو زرداری صاحب نے اسکو بڑھا کر پانچ سال تک کر دیا ہے۔
عامل۔۔۔۔۔ بچہ! ان باریوں کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا؟ کھل کے بتا۔ معمول۔۔۔۔ استاد جی ! باریوں کا مطلب ہے ، اس ملک کے وسائل کو لوٹنے کی باری ہے ، پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ دراصل یک جان دو قالب ہیں اور فرینڈلی اپوزیشن بھی اسی میثاق کی ایک کڑی ہے ، ان دونوں جماعتوں نے ایک ہی ماسک دو الگ الگ جسموں پر چڑھا رکھا ہے تاکہ کسی کو اصل چہرہ دکھائی نہ دے سکے ، لیکن اب لگتا ہے کہ ان کی باریوں کی باری ختم ہونے والی ہے ۔ عامل ۔۔۔۔۔بچہ! تجھے کیسے معلوم ہوگیا کہ اب ان کی باریاں بند ہونے والی ہیں تو نے کہیں علم نجوم سیکھ لیا ہے کیا؟ یا شیخ رشید اورپیر پگاڑا کی طرح پیش گوئیاں تو نہیں کررہا ہے ؟
معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! یہ پیش گوئیاں نہیں بلکہ سچی مچی باتیں ہیں کیونکہ پچھلے دور میں زرداری صاحب نے پنجاب کو فتح کرنے کے لئے ایک پنجابی ملتانی اور دوسرا گجر خانی وزیراعظم بنا کر ٹیسٹ کیا مگر بری طرح ناکام ہوگئے بلکہ پنجاب کو فتح کرنے کے چکر میں اپنا گراف بھی گرا لیا ، جبکہ بلاول بھٹو زرداری ابھی صرف ممبر قومی اسمبلی تو بن سکتا ہے مگر وزیراعظم نہیں کیونکہ اس کی عمر ابھی کم ہے۔ عامل۔۔۔۔۔ بچہ! تو پیپلز پارٹی کے گراف کی بات کررہا ہے مگر پنجاب میں مچھر اور خیبر پختون خوا میں چوہے مار مہم کا اصل ماجرا کیا ہے ؟ ان کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟ معمول۔۔۔۔۔ استاد جی! آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں ، آجکل اتنی زیادہ زہریلی سپرے اور گولیاں آگئی ہیں کہ جن کے صرف سونگھنے اور چکھنے سے ہی یہ مچھر اور چوہے مرجائیں ، مگر آپ نے دیکھا کہ کروڑوں ، اربوں روپے کے سپرے اور گولیاں تو خریدلی گئی ہیں مگر ابھی تک دونوں حکومتوں سے نہ سالے مچھر مرے اور نہ ہی فراڈیئے چوہے۔
Imran Khan
یہ لوگ مچھروں اور چوہوں کو نہیں ماررہے بلکہ اپنے اپنے حریفوں کو مارنے دبانے اور ڈرانے کی بڑھکیں ماررہے ہیں، کیونکہ مچھر اور چوہے اصل میں پنجاب اور کے پی کے میں وہ حریف ہیں جو ان حکومتوں کو گرانے کے درپے ہیں ۔ جس طرح جنگ کے دوران اپنے دشمنوں پر قابو پانے کیلئے فوجیں ”کوڈ ورڈز” استعمال کرتی ہیں تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے ، اسی طرح چھوٹے میاں صاحب اور خان صاحب نے مخالفین کو چت کرنے کے لئے مچھر اور چوہے دھوبی پٹکا مارنے کے لئے یہ کوڈ ایجاد کئے ہیں ۔ میاں شہباز شریف صاحب پنجاب میں اپنی مخالف قوتوں کو ڈینگی مچھر سمجھتے ہیں اور انہیں دبانے کیلئے یونین کونسل سے صوبائی حکومت تک تمام ماتحت عملے (فوج) کو ان مچھروں پر قابو پانے ، مار بھگانے ، دبانے گرانے اور جلانے کے لئے ہر حربہ استعمال کررہے ہیں جس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہیں ، اسی طرح صوبہ پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کے ”تھنک ٹینک ” نے اڑھائی سال کی سوچ بچار کے بعد مچھر مار مہم کے مقابلے میں اپنا سنگ چور ”چوہے مار مہم ” کے نام سے ایجاد کر لیا اور تمام صوبے میں اپنے سٹاف کو سمجھایا کہ چوہے مارتے وقت یہ خیال ذہن میں رہے کہ ہم مخالفین کا خاتمہ کررہے ہیں۔
عامل ۔۔۔۔۔ بچہ ! تو نے سندھ پنجاب اور کے پی کے کی بات تو بتا دی مگر بلوچستان بھی تو ہمارا حصہ ہے ، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا؟ معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! افسوس ہے کہ ہمارا ملک تقسیم ہو چکا ہے ، حکمرانوں نے ایک سازش کے تحت لوگوں کے ذہنوں میں پنجابی ، پٹھان ، بلوچی اور سندھی بھر دیا ہے ، تینوں بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے صوبے اپنی پہچان بنا لی ہے ، ان کے نزدیک ان کی کامیابی صرف وہی ہیں اور انہی کی طرف ساری توجہ مرکوز ہے ،مگر افسوس کہ بلوچستان میں ان جیسا کوئی لیڈر نہیں ، یہ تینوں بڑے اس کو بھی فاٹا سمجھتے ہیں ، وہاں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے اپنے حصے کے علاقے کے دعویدار ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اب اسکو بے آسرا سمجھ کر ملک دشمن قوتوں یعنی انڈیا اور اسرائیل وغیرہ نے اپنے اپنے جاسوسوں کے ذریعے اپنے پائوں جمانا شروع کردیئے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم میں مصروف عمل ہیں ، بھلا ہوپاک آرمی کا کہ جس کے وہاں ہونے سے کوئی دشمن اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ، لیکن اندرون خانہ وہ اپنے پنجے گاڑھ چکے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں پاکستان مخالف لابی بنا رہے ہیں ۔خدشہ ہے کہ کہیں (مکتی باہنی) نہ پروان چڑھ جائے ، لیڈروں کو اس طرح بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کہیں اپنی اپنی باریوں کے چکر میں ایک اور بازو ہی نہ کٹوا بیٹھیں۔
عامل ۔۔۔۔۔ بچہ ! ان باریوں کے چکر میں تو ہمارا بہت نقصان ہو چکا ہے ، اب بتائو کہ یہ بوہے باریاں کیسے بند ہوں گی اور کون کرے گا ؟ معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! اس کا واحد حل ہمیں ایک قوم بننا ہوگا وہ قوم جسے پاکستانی کہتے ہیں ، یعنی سب سے پہلے پاکستان پھر صوبے ۔ اگر ہم نے ترقی کرنا ہے اور پاکستان کو نیا پاکستان ،ایشیئن ٹائیگر یا عوام کو حقیقی معنوں میں اپنا سر چشمہ بناناہے تو ہمیں بلوچی ، پٹھان ، سندھی اور پنجابی کی بجائے پاکستانی ہونے کی پہنچان دینا ہوگی ، اس کے لئے ہمارے حکمرانوں کو اپنے اپنے حصے کے صوبوں کی بجائے پورے پاکستان کو اپنا حصہ سمجھنا ہوگا ،وہی لیڈر ہی اصل حق حکمرانی کا حقدار ہوگا جس کو چاروں صوبوں کی عوام کی ترجمانی حاصل ہوگی کیونکہ وفاق کی علامت بھی چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے نہ کہ اپنے اپنے حصے کی ۔ اگر صوبہ بلوچستان کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو راء کے ایجنٹ آتے جاتے رہیں گے ، ان لیڈروں اور حکمرانوں کو یہ بات بھی ضرور ذہن میں بٹھانا ہوگی کہ معدنی ذخائر سے مالا مال اس صوبے کو بیرونی سازشی عناصر پہلے ہی نقشے سے ختم کر چکی ہیں ،اب وہ اسے حقیقی معنوں میں نقشے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں ،اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہوگا بلکہ مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیڈر ہی ہونگے ،سیاست اپنی اپنی جگہ ضرور کریں مگر صوبہ بلوچستان کو بچانے کے لئے ایک میز پر صدق دل سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کی ترقی ، خوشحالی اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی ، کیونکہ اب 21ویں صدی ہے اور بدقسمتی سے وہاں کے باسی اب بھی کئی سو سال پرانی زندگیاں گذارنے پر مجبور ہیں ، اس پر حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔