بچہ جمورا

Bacha Jamora

Bacha Jamora

تحریر : ریاض احمد مغل
میں کون ۔۔۔۔عامل تو کون ۔۔۔۔معمول عامل۔۔۔۔جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا۔ معمول۔۔۔۔ بتلائوں گا عامل۔۔۔۔ گھوم جا معمول ۔۔۔۔گھوم گیا عامل۔۔۔۔ کہاں گم سم ہو معمول۔۔۔۔۔دکھیاں دی بیڑی کھاندی اے اولارا ۔۔۔۔مشکل کشا سانوں تیرا سہارا عامل۔۔۔۔۔بچہ ! کیا بات ہے ، کس طوفان میں تمہاری بیڑی پھنس گئی ہے؟ معمول۔۔۔۔۔ استاد جی ! 1947ء سے لیکر 2016ء تک 69سال بیت چکے ہیں ، قیام پاکستان کے بعد اقتدار کی جنگ شروع ہے مگر عوام کا کسی لیڈر نے کچھ نہ سوچا ، اسی لئے آج بھی ملک ہچکولیاں کھا رہا ہے ، ماسوائے پاک آرمی ، نیوی اور ایئرفورس کے کوئی شعبہ ایسا قابل تعریف نہیں کہ جس پر ناز کیا جسکے اور جو ملک کی ترقی میں رواں دواں ہو ، ہر شعبہ تنزلی کی طرف گامزن ہے ، ہر ملازم اسے کھانے اور لوٹنے میں لگا ہے ، ہم اسی لئے تو آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کے نیچے دب چکے ہیں ، جن سے جان چھڑانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

عامل۔۔۔۔۔ بچہ ! یہاں تو بڑے بڑے لوگ بستے ہیں جن کے پاس اربوں کھربوں روپے ہیں ،کیا وہ قرض نہیں اتار سکتے؟ معمول۔۔۔۔۔ استاد جی! آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے کہ یہاں 22/24 خاندان ایسے ہیں کہ جو اپنا آدھا روپیہ ہی ملک کے اندر لے آئیں تو پاکستان خوشحال ہوسکتا ہے ، تمام قرضے ادا ہوسکتے ہیں ، نئی فیکٹریاں لگ سکتی ہیں ، بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے ، مگر یہاں کے سیاستدانوں کی حب الوطنی بھی الٹی گنگا کی طرح بہتی ہے، یہ بجائے ملک کے پہیے کو چلانے کے دوسرے ممالک کے خیر خواہ زیادہ ہیں ، پیسہ کماتے تو یہاں ہیں اور خوب کماتے اور لوٹتے ہیں مگر بیرون ممالک کے بنکوں کو ریونیو دیتے ہیں جیسے انہیں اپنے ملک سے دشمنی ہو اور اس دشمنی کے نتیجے میں نقصان پہنچانا درکار ہوتا ہے ، یہ لوگ جہاں حکمرانی کرتے ہیں اسی کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں ، یہ لوگ ملک یا عوام کے نہ توخیرخواہ ہیں اور نہ ہی انہیں ان سے محبت ہے ، صرف دکھلاوے کے حب الوطنی کے نعرے کے لگاتے ہیں، آپ نے پانامہ لیکس کی مکمل رپورٹ تو دیکھ لی ہو گی۔

عامل۔۔۔۔۔بچہ ! مجھے آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران جن کے ذمہ بجلی، گیس یا ٹیلی فون وغیرہ کے واجبات ہوں تو انکو تو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے دیتا ہے مگر جو ایم پی اے ، ایم این اے یا سینیٹر ز کروڑوں ، اربوں یا کھربوں روپے ملک کے لوٹتے ہیں ، بیرون ممالک آف شور کمپنیاں بناتے ہیں ، وہ کیسے اہل ہوجاتے ہیں ، اور جو ملک کی اکانومی بہتر کرتے ہیں تو وہ 62/63کے ضمرے میں آجاتے ہیں ،ایسا کیوں ہوتا ہے؟
معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! آپ نے آج وہ بات کہہ دی جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے ، یہاں قانون الٹا رائج ہے کہ چھوٹے چور کو چھڑو نہ اور بڑے چور کو پکڑو نہ۔

Rupees

Rupees

اسی طرح ہم نے ہر نوسرباز اور خیانت کرنیوالے کو خزانوں کا سربراہ اور رکھوالا بنا رکھا ہے ، پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ (کھکھڑیاں دے راکھی گیدڑ) ۔تو پھر ایسے لوگوں سے ایسی ہی توقع کی جاسکتی ہے، بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کو بھی دیکھ لیا آپ نے ۔کہ اسکو حکومتی خزانوں پر بھروسہ نہیں تھا اسی لئے حکومتی پیسے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر گھریلو خزانے کو بھر رہا تھا ۔واہ! ہم بھی کیسا انصاف کرتے ہیں ۔کہ ایسے چوروں ڈکیتوں اور لٹیروں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ دے دیتے ہیں ، ہر قسم کی مراعات دیتے ہیں اور پھر اپنی قسمت کو کوستے ہیں۔ عامل۔۔۔۔۔ بچہ ! یہ بتا کہ تو تو پوری دنیا کے کونے کونے میں گھوم پھر کر آیا ہے ، پاکستان جیسا ملک کہیں اور دیکھا کیا؟۔

معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! میں نے پوری دنیا دیکھی ،کرپشن ہوتی ہے مگر چھوٹی چھوٹی ۔ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا راز شہریوں کا ملک سے محبت ہے ، وہ اپنے ملک کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں ، کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے گھر اور وطن کو نقصان اور بدنامی کا اندیشہ ہو ، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ان کی عزت ہے، وہاں کا نظام بھی سخت ہے ، وہ مزدور ہو یا بادشاہ ، سب پر آئین ایک جیسا لاگو ہوتا ہے ، اور اسکی سزا بھی ایک جیسی ہوتی ہے ، وہاں کے عدالتی نظام میں رشوت اور سفارش نام کی کوئی چیز نہیں ، مگر یہاں ججز بھی کرپٹ اور عدالتیں بھی بکی ہوتی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جس ملک میں انصاف نہیں ہوتا وہاں جنگل کا قانون لاگو ہوتا ہے ،ہمارے ہاں لاگو ہے۔

عامل ۔۔۔۔۔ بچہ ! اب مجھے سمجھ آیا کہ تو کس بیڑی کے اولارے کھانے کی بات کررہا تھا ، یہ بتا کہ ہم کیسے ان مشکل حالات سے باہر نکل سکتے ہیں ؟ ہمار ا مشکل کشا کون ہوگا؟
معمول ۔۔۔۔۔ استاد جی ! اگر ہم نے آئی ایم ایف /ورلڈ بنک اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ سے باہر نکلنا ہے تو سب سے پہلے جن لوگوں نے (خصوصاً سیاستدان) نے اپنی رقوم بیرون ممالک جمع کروا رکھی ہیں ، انہیں واپس لانا ہوگا ، جو واپس نہ لائے اسے ہر قسم کے الیکشن کیلئے نااہل قرار دے دینا چاہیئے ،جو لوٹ مار اور کرپشن جیسے مکروہ دھندے میں ملوث پایا جائے اسے نہ صرف نوکری سے برخاست کیا جائے بلکہ آئندہ ہر قسم کے سرکاری ادارے کیلئے نااہل قرار دے دیا جائے ، رشوت اور شفارش کے کلچر کو مکمل طور پر دفن کر دیا جائے ۔ لوٹ مار میں ملوث کسی بھی شخص کو نہ صرف بلدیاتی بلکہ صوبائی ، قومی اور سینیٹ کے الیکشن کے لئے بھی نااہل قرار دے دیا جائے۔

Pak Army

Pak Army

آئین کے آرٹیکل6کے تحت آرمی پرسن پر حکومت کرنے کی پابندی کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ آرمی ایک ایسا شعبہ ہے جس نے نہ صرف ملکی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے بلکہ ملک کو اندرونی اور بیرونی ہر د وصورتوں میں وہ چاہے آپریشن ضرب عضب ہو ، کراچی آپریشن ہو ، زلزلہ اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں ،ہر قسم کے ناگہانی آفات کیلئے فرائض سرانجام دے رہی ہے ، اگر ملک کو ہر قسم کے ناگہانی حالات کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے تو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے میں کیوں رکاوٹ ہے ، اگر آرمی کے حلف پر اعتراضات ہیں تو باقی ان تمام سیاستدانوں ، وزراء ، وزیراعلیٰ ، گورنر،وزیراعظم ، صدر پاکستان غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جو اپنے عہدوں کا چارج سنبھالتے وقت حلف لیتے ہیں تو ان کی خلاف ورزیوں پر بھی اعتراضات ہونے چاہیئے۔

میرا سوال ہے کہ اگر پاک آرمی کوہر قسم کے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لڑنے کیلئے محب وطن قرار ، وطن کے سپاہی کہا جاتا ہے تو پھر ملک کی باگ دوڑ سنبھالتے وقت کیوں غدار قرار دیا جاسکتا ہے اور ان کے ساتھ ان سیاستدانوں کو بھی غدار قرار دینا چاہیئے جو آمریت میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں ، عجب منتق ہے کہ ایک شہری کو ایک غلطی پر مجرم جبکہ دوسرے کو باعزت بری اور معصوم قرار دیا جاتا ہے۔

یہ دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا ۔ جمہوریت کے دعویدار آمریت کے خلاف تو جوشیلی تقریریں کرسکتے ہیں مگر کرپٹ عناصر کے خلاف علم بغاوت نہیں کرتے ۔ کیا آرمی کے لوگ باہر کی دنیا کے لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ دینا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے کیا ملک لوٹنے والوں کا احتساب نہیں کیا جاسکتا ، کبھی چور نے بھی چور کو چور کہا۔

Riaz mughal

Riaz mughal

تحریر : ریاض احمد مغل