تحریر : میاں نصیر احمد چائلڈ لیبر سے مراد نوعمر اور کم سن بچوں سے محنت مشقت اور ملازمت کرانا ہے، یعنی بچے کو اس کے حق تعلیم و تفریح سے دور کر کے اس کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیا جائے، چائلڈ لیبر بچوں کے مسائل میں اہم ترین مسئلہ ہے ۔دنیا میں آنے والے ہر بچے کاحصول تعلیم بنیادی حق ہے اس حق کی بناء پر ہی وہ اپنا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے۔ یہاںپر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ آرٹیکل 32کے مطابق ریاست بچوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کرے گی، اور انہیں ایسا کام کرنے سے روکا جائے گا، جو ان کی تعلیمی معمولات کو متاثر کرے یا وہ بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے مضر ہو،چائلڈ لیبر کی تشریح اقوام متحدہ کا ادارہ انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ کچھ ان لفظوں میں کرتا ہے وہ بچے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اور وہ کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ،وہ تمام بچے چائلڈ لیبرمیں شامل ہیں، اس قسم کے بچے آج پوری دنیا میں ہمیں مختلف طریقوں سے اپنا پیٹ پالتے نظر آتے ہیں اگر ہم چائلڈ لیبر کا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو لاطینی امریکہ ،افریقہ اور ایشیا میں کروڑوں بچے چائلڈ لیبر کا شکارنظر آتے ہیں،کچھ لوگوں کے مطابق ایشیا کے کئی ممالک کے اندر ایک سے دس افرادی قوت چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے۔
پاکستان میںچائلڈ لیبرایک سماجی ضرورت بن چکی ہے ،پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی پاکستان کو بنے 70 سال ہو چکے ہیں ایسا ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا تاکہ سب مسلمان یہاں آزادی سے زندگی گزار سکیں سب کو ان کے حقوق ملیں پھر کیا وجہ ہے کہ نوعمر بچے اپنے بنیادی حقوق اورتعلیمی حقوق سے محروم ہیں او ر وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں دی جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو منشور کا حصہ بنایا اور نہ ہی معاشرے کے کسی اور طبقے کی طرف سے اس جانب کوئی پیش رفت سامنے آئی ہو۔ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے اوپر تسلیم کر لیا ہے، حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں معصوم بچے کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں،معصوم بچے جو کسی بھی معاشرے میں ایک پھول کی حیثیت رکھتے ہیں، اور معاشرے کی ایک انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ،جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے، لیکن جب حالات سے مجبور ہو کران بچوں کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں محنت مشقت پر مجبور کر دیا جائے تو معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے ۔پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی لہٰذاچائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرناہوگا،اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے ، پاکستان کا ارٹیکل 11 سیکشن 3 کے تحت ملک میں 14 سال سے کم عمربچے کسی فیکٹری، کان یا ایسی جگہ ملازمت نہیں کرسکتے جو ان کے لئے جسمانی اعتبار سے خطرناک ثابت ہو۔ یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے2002ء کے دوران حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز ۔لیبر ڈیپارٹمنٹ، ٹریڈ یونینز، مالکان اور غیر سرکاری تنظیموںسے مشاورت کی تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مقصود تھا کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت بچوں کے لئے کون سے پیشے یا کام نامناسب ہیں۔ اس مشاورت سے ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہوا اور درج ذیل پیشوں اور کاموں کی فہرست تیار ہوئی جو بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے بہتر نہیں ہیں۔کان کنی ،طاقت ورمشینوں پر کام کرنا ،چمڑے کی صفائی سے متعلقہ تمام کام ،کیڑے مار ادویات کو ملایا اور ان کا استعمال،شیشہ سازی،کیمیکل انڈسٹری ،کوئلے کی صنعت ، سیمنٹ انڈسٹری ،آتش بازی کے سامان کی تیاری اور فروخت ،ایسی جگہ پر کام کرنا جہاں سیلنڈروں میں سی این جی یا ایل پی جی بھری جاتی ہے۔
شیشے اور دھات کو پگھلانے والی بھٹیاں ،کپڑے کو رنگنے، پرنٹ کرنے اور پیکنگ کا عمل،سیوریج پائپ لائنوں اور اس سے منسلک کام ،پتھروں کو توڑنے کا عمل، سامان اٹھانا یا ٹرکوں پر لوڈ کرنا،پندرہ کلوگرام سے زیادہ،،صبح دس سے شام آٹھ بجے تک ہوٹلوں میں کام کرنا،قالین بافی ،زمین سے دو میٹر کی بلندی پر کوئی بھی کام کرنا، کوڑا کرکٹ سے پلاسٹک، کاغذ یا ہسپتال سے فاضل سامان چننا ،تمباکو کی صنعت سے وابستگی ،ماہی گیری ،بھیڑوں کی کھالوں سے اون کا حصول کرنا ،آلات جراحی کی صنعت ،بحری جہاروں کو توڑنا اورچوڑیاں بنانے والی بھٹیاں اس فہرست میں کئی غیر رسمی پیشے شامل نہیں ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ان میں زراعت، بھٹہ خشت، گھریلو ملازمت، گھریلو صنعتیں، دوکانوں اور ورکشاپوں پر کام کرنا ,بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیںجس کی وجہ سے غربت اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پاتے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے نازک کمزور اور ناسمجھ بچوں کو کام پر لگا دیں تاکہ ان کو دو وقت کی روٹی میسر ہو سکے اور ان کی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں سکول جانے کھیل کود کی عمر میں بچے مجبور ہیں کہ وہ دکانوں،ہوٹلوں، بس اڈوں، ورکشاپوں اور دوسری جگہوں پر مزدوری کریں اور اس طرح قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن کی خوشیوں اور یادوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن کی و جہ سے والدین اپنی کم سن اولاد کو کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں،پاکستان میں عام طور پر وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود روزی کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے تو ایسے والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔
پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس بطور شاگرد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے ،بچوں کی بہبود کے لئے آئی ایل او کے منصوبہ پر کام کرنے والے اہلکار کے مطابق قالین بافی میں صرف 22 فیصد بچے خاندان کی غربت کی وجہ سے تھے جبکہ علم کی طرف رغبت دلانے پر 45فیصد بچوں نے قالین بافی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر سکولوں کا رخ کرلیا۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات بچوں کی مزدوری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور بنیادی تعلیم سے بھی مزدور بچوں کے حالات میں بہتری آسکتی ہے چائلڈ لیبر عام طور پر غریب اور پسماندہ ممالک میں ہے حکومتی سطح پر ان مسئلے کی جانب عدم دلچسپی اس مسئلے کا تیزی سے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے چودہ سال ہوگئے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور خود اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے مزدور بچوں پر آخری سروے 1996 میں ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا ۔کہ ملک میں تینتیس لاکھ مزدور بچے ہیں جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے مزدور بچوں کا 80فیصد تو غیررسمی شعبہ میں ہے جیسے گھروں میں اور کھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں سے بیس لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری سے متعلق جو قوانین ہیں ان میں بچے کی تعریف میں ایسے نوعمر لوگ ہیں، جن کی عمر ابھی پوری چودہ سال نہیں ہوئیَ جبکہ عالمی کنونشنز میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔
ملک میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، اور یہ سب بچے کسی وقت بھی نو عمر مزدور بن سکتے ہیں اورحکومت چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر عمل درآمد کیا جائے ،پاکستان 1990ء میں اس کنونشن کا حصہ بنا تھا۔واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔یہاں پر بڑی غورطلب بات یہ ہے کہ ملک میں ایک ایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جو کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو کوئی نہ کوئی مفید ہنر بھی سکھائے۔ایسا ہنر جو مستقبل میں ان کے لئے مدد گار ثابت ہواور چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم ، علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرناہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔تا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے، چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کی جائے،اورحکومت بھی کو چاہیے کہ قومی سطح پر غریب بچوں کی مفت تعلیم کو ممکن بنانے کے لئے اقدامات کرے اور ان کو معاشرے کاایک ہنر مند فرد بنائے اور ان اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہو گی ،تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچے جو اس قوم کے معمار ہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔