بچے کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں کیونکہ یہی بچے آنیوالے وقتوں میں مستقبل سنوارتے ہیں۔ لیکن کیا محنت کش بچے ہمارا مستقبل سنوار سکتے ہیں؟ محنت کش مزدور بچے سے مراد ہے کہ وہ بچے جن کابچپن چھن جائے۔ جب انکی کھیلنے کودنے کی عمر ہوتو انہیں معاشرے میں کام کرنے پرلگا دیا جائے۔ ایسے بچے میں ذہنی ،جسمانی اخلاقی صلاحیتیں ختم ہوکر رہ جاتی ہیں انکی عزت نفس بھی برقرار نہیں رہتی۔ بچوں کا سکول چھڑوا دیا جاتا ہے۔ بچپن میں ہی ان پر بھاری ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔
حکومت کو اس مسئلے کا ادراک تو تھا مگر عملی جامعہ چائلڈ لیبر منصوبے کا آغاز کر پہنایا گیا،،، چائلڈ لیبر پروجیکٹ کی ابتدا ایک انتہائی احسن اقدام تھا جس کی وجہ سے اسکول سے باہر،مزدوری کرتے بچے، تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہونے لگے تھے۔کمیونٹی اور خصوصاً سوشل سیکٹر کے لوگوں نے اسے پذیرائی دی اور یہ سلسلہ گلی گلی قریہ قریہ کامیابی سے غریب و نادار بچوں کو تعلیم کے حصول کی طرف لے آیا۔اسے سستی کہیے یا کچھ اور اچانک اس منصوبے کو بند کردیا گیا۔
غریب بچوں کی تعلیم کا خواب ادھورا رہ گیا۔موجودہ پی ٹی آئی حکومت کے مشن یہ بات طے تھی کہ ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے،،، یہی نہیں بلکہ اس حوالے سے چائلڈ لیبر ڈائریکٹوریٹ بھی قائم کیا جائے گا ،،یہ منصوبہ آگے کیا بڑھتا اسے سرے سے ہی ختم کردیا گیا۔اس منصوبے کو جب شروع کیا گیا تو مشکل تکنیکی مراحل سے گزرنا پڑا مگر بیک جنبش خاتمہ کر کے لاکھوں بچوں کے متوقع روشن مستقبل کو تاریک کردیا گیا۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی بھی منصوبے کے انفراسٹرکچر پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو بجائے ان کالی بھیڑوں کو پکڑنے، انہیں سزا دینے کے ، یہ پروگرام ہی بند کر دیا گیا،،ایسا کرکے مزدور بچوں کو سزا کیوں دی جا رہی ہے۔۔توقع تھی کہ حکومت چائلڈ لیبر کے ذریعے ملک کے ڈھائی کروڑ تعلیم سے محروم بچوں کا مستقبل محفوظ بنائے گی،،مگر اس کے برعکس ہوا۔دیکھا جائے تو اس منصوبے کو ملکی سطح پر پذیر ائی ملی ،، غریب مزدور بچوں کو بڑی کوشش کے تعلیمی اداروں میں لایا جانے لگا تھا۔اس منصوبے سے وابستہ لوگ پڑھے لکھے اورباصلاحیت تھے ، وہ کمیونٹی سے مل کر اس منصوبے کو آگے بڑھا رہے تھے۔
یہ واحد منصوبہ تھا جس میں دکانوں، ہوٹلوں، شاہرائوں سے بچوں کو تعلیمی اداروں میں لایا جارہا تھا۔اوررورل آریا میں نان فارمل تعلیمی نظام کو اس کی اصل روح کے مطابق چلا رہا تھا۔دوسری جانب کارخانے اور چھوٹے کاروباری یونٹ بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبور تھے۔ حقائق کے باوجود اس منصوبے کو خاموشی سے بند کردینا انتہائی مشکوک اور ظالمانہ اقدام ہے۔ ایسا کرنا کروڑوں تعلیم سے محروم بچوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو فوری اس اقدام کا نوٹس لیتے ہوئے 2023تک اس منصوبے کو چلایا جائے،، یہی نہیں کرپٹ عناصر کو بے نقاب کر کے کڑی سزا دینی چاہیے جنہوںنے قومی معاملے میں کھلواڑ کیا۔
پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام انقلاب کی صورت میں نہیں آیا بلکہ سامراجی مداخلت کی بدولت آیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان کا حکمران طبقہ اپنا کوئی بھی تاریخی فریضہ سرانجام نہیں دے پایا۔ پچھلے 70 سالوں میں پاکستانی محنت کش طبقے کا کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو پایا۔