تحریر : ملک محمد سلمان اتنی پیاری سی بیٹی جس کی مسکراہٹ دیکھتے ہی مجھے اس کے والدین پر رشک آنے لگا کہ جس کے آنگن میں یہ پھول کھلا،دوسرے ہی لمحے تصویر کے ساتھ جو خبر بریک ہوئی اسے سنتے ہی یوں محسوس ہوا کہ میرے جسم میں خون جم گیا ، سانس رکتی رکتی محسوس ہوئی ،دل بجھ سا گیا۔ قصور کے امین انصاری کی 7 سالہ ننھی پری زینب کو نامعلوم افراد نے جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا ۔7سالہ زینب کو 4 روز قبل گھر کے باہر سے اغواء کیا گیا تھا اور زیادتی کے بعد گلا دباکر قتل کردیا گیا آج چار روز کے بعد لاش گندگی کے ڈھیر سے برآمد ہوئی۔اس بچی کے والدین ادائیگیِ عمرہ کے لیے حرم میں موجود ہیں اور ان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے درندوں نے اس بچی کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا دیا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں گزشتہ آٹھ ماہ میں ضلع قصو میں زیادتی کے بعد قتل کا گیارواں واقعہ ہے۔
گھر آیا تو ہر چیز افسردہ افسردہ نظر آ رہی تھی ، کھانا نہیں کھایا گیا، رات کو لکھنے کی کوشش کی لیکن دل ، دماغ ، قلم ، جذبات سب کچھ قابو سے باہر تھے ، چند جملے لکھے اور پھر چھوڑ دیا ۔رات 12 سے صبح فجر کی اذان ہوچکی تھی لیکن نیند نہیں آئی ۔ ایک خوبصورت اور پیاری سی پری کی تصویرسامنے تھی ، معصوم چہرہ اور اس پر مسکان اور چمکتی آنکھیں ، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے باتیں کر رہی ہو، سوال کر رہی ہو کہ کوئی حکومت ہے ، کوئی پولیس ہے ، کوئی انتظامیہ ہے،کوئی چیف جسٹس ہے تو ازخود نوٹس لے لے، میرے قاتل کو عبرت کا نشان بنائے۔
آخر کیا قصور تھا اس معصوم سی ننھی کلی کا ؟ کسی خنزیر سے بدتر ہیں یہ لوگ۔ بے شرمو تمہیں اپنے گھر میں اپنی اولادوں کا بھی خوف نہیں آیا ، خدا کا قہر نازل ہو تم پر۔اتنی ہوس ہے تمہاری کہ جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہو۔۔۔؟کیا ان درندوں کو انسان کہا جاسکتا ہے جنہوں نے ایک ننھی کلی کو اپنے شیطانی ہاتھوں سے مسل ڈالا۔ درندوں نے اس ننھی کلی کی عصمت لوٹ لی۔ وہ شکل میں تو انسان ہوگا تاہم میں اس کو انسان تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس درندگی پر خودانسانیت سر چھپائے پھررہی ہے۔ بچی کواپنی درندگی کا نشانہ بنایا اورقتل کرکے کوڑے دھیڑپر پھینک گئے۔ بچی کے ساتھ اس طرح کے ظلم پر صرف اس کے گھر میں ہی نہیں ملک بھر میں سوگ کا سماں پیدا ہوگیا۔ اس خبر کو جس نے بھی پڑھا یا سنا اس کا دل ضرور پسیج گیا۔ نہ جانے ان درندوں کا دل کس چیز سے بنا ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کر ڈالا۔
تھوڑی دیر کیلئے ایک بھائی اور باپ بن کر اس معصوم فرشتہ صفت بچی کا چہرہ سامنے رکھیں کر سوچیں،جب ہوس پرستوں نے اسکو اغوا کیا ہوگا اور زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا ہوگا تو اس چہرے پر چھائی بربادی کیسی دکھتی ہوگی؟؟ معصوم کی ننھی زبان سے کیا کیا دہائی نہ نکلی ہوگی۔۔۔کیسے کیسے چیخ کر پکارا نہ ہوگا کہ کوئی بچانے آجائے۔۔۔ ماں یاد نہ آئی ہوگی، باپ کو پکارا نہ ہوگا۔؟؟
دل چیخ چیخ کر ماتم کررہا ہے کہ لوگ اتنے بے ضمیر کیوں ہوتے جارہے ہیں؟قاتل اورعزتوں کے لٹیرے آزادہیں جبکہ معصومین اذیت ناک موت مررہے ہیں۔یہ بات ہم انجان لوگوں سے برداشت نہی ہو رہی ،ایسی کیفیت ہے کہ بیان نہی کر سکتا ،جن کی یہ بچی ہو گی ان پر کیا بیتی ہو گی ؟پچھلے ایک سال میں زینب جیسی دس بچیاں ایک ہی ضلع قصور میں ایسی درندگی کا نشانہ بنی ہیں۔ درندگی اور سفاکیت کا گیارواں واقعہ ،ملزمان کو پکڑنے میں ناکام قصور پولیس پر سوالیہ نشان؟ کیا لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دی جائیں؟ کیا انہیں ٹافی لینے دوکان تک، پڑھنے کے لیے سکول تک اور کھیلنے کے لیے گلی تک بھی نہیں بھیجا جا سکتا؟ کیا ہماری ہوس اس حد تک چلی گئی ہے کہ سات سال کی بچی کو بھی ہم سے پردہ کرنا پڑے گا؟ انتہائی افسوسناک اور درد سے بھری صورت حال ہے ،آخر انسانیت کب جاگے گی ،انسان نما درندے کب تک بے گناہ اور معصوم بچوں کو اسی طرح سے درندگی کے ساتھ قتل کرتے رہیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں بچوّ ں کے ساتھ بدفعلی کرنے کاناقابل فراموش سانحہ 2015ء میںاسی ضلع قصور کے نواحی گاؤں حسین خان والا گاؤں میں پیش آیا ۔ 25 افراد پر مشتمل ایک گروہ نے تقریبا 280 بچوّں کو نہ صرف اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بلکہ دوران زیادتی ان معصوموں کی ویڈیوز بنا کر ان بچوّں کے والدین کو بلیک میل کیا اور ان سے لاکھوں رو پے وصول کئے۔ پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے والے اس شرمناک کھیل کے اصل ملزمان آج بھی قانون کی پہنچ سے دور ہیں۔پولیس کی ساز باز اور سیاسی دبائو پر لوگوں کی اس قدر تشویش کے باوجود اس کیس کو دبا دیا گیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔
بچوں سے زیادتی کے خلاف سرگرم فلاحی تنظیم ”ساحل” کی رپورٹ کے مطابق تقریباًہر روز 11 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں زیادہ تر6 سے 15سال کے درمیان تھیں۔رپورٹ کے مطابق تشویش ناک بات یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کے رشتے داروں اور جاننے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔گذشتہ برس بچوں کے خلاف کیے گئے جو جرائم رپورٹ ہوئے اْن میں اغوا کے 1455کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ جنسی حملوں کے بعد قتل کے 100 واقعات سامنے آئے۔پاکستان کے دیہی علاقوں سے 76 فیصد جبکہ شہری علاقوں سے 24 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے۔اس تمام تر صورت حال میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی کارگردی تو درکنار موجودگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔؟افسوس یہ ہے کہ پورے پاکستان میں معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی کے ارتکاب کی وارداتیں ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ ریاست معصوم بچوں کو اپنا ورثہ سمجھے، اْن کی تعلیم و تربیت ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔خدارا! قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھیے۔