تحریر : ابن ریاض سعودی عرب ہمارے بچپن کی بات ہے(زیادہ دور کی نہیں) کہ ملک میں صرف ایک ہی ٹی وی چینل تھا۔ ملک میں ٹی وی چینلز کا سیلاب نہیں آیا تھا۔ چنانچہ طوہًا و کرہًا ای کو دیکھنا پڑتا تھا۔ اب جب ہم چینلز کی بھرمار دیکھتے ہیں اور کسی ایک چینل پر بھی نظر کرم نہیں پڑتی تو ہم یاد ماضی میں کھو جاتے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ زیادہ چینلز سے مسابقت کی فضا پیدا ہو گی اور پروگراموں اور ڈراموں کا معیار بہتر ہو گا مگر ہم تو یہ کہتے ہیں کہ کوئی لوٹا دے میرے بیتے ہوئے دن پی ٹی وی پر طارق عزیز شو اور نیلام گھر کے نام سے ایک معلوماتی پروگرام نشر ہوتا تھا(جو ایک شاید اب بھی جاری ہے مگر ہم عدیم الفرصتی کے باعث دیکھ نہیں پاتے۔) اس پروگرام میں سوالات کے جوابات پر انعامات ملتے تھے۔
سوالوں کا معیار انعامات کے حساب سے ہوتا تھا۔موٹر بائیک اور کار کے سوالات خاصے مشکل ہوتے تھے اور کبھی کبھار ہی کسی کی قسمت جاگتی تھی۔لیکن اس میں بھی قسمت سے زیادی دخل کاس کی محنت کاہوتا تھاجو کہ وہ معلومات عامہ کی کتابوں پرصرف کرتا تھا۔ اور کچھ دوسرے سلسلے بھی تھے جیسے نئے جوڑوں میں مزاج آشنائی اور کسی روشن ستارے سے ملاقات۔ غرض معلومات کی معلومات اور تفریح کی تفریح۔اس پروگرام کا ہم پر یہ احسان رہا کہ ہم نے بہت سے کوئز پروگراموں مین شرکت کی اور امتیازی مقام حاصل کیا یہ مگر دیر کی کہانی ہے یہ مگر دورکا فسانہ ہے
اب نیا دور ہے اور نئے چینلز والوں نے اپنے ‘نئے صبح و شام’ پیدا کر لئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس دور میں جب کہ اکثر و بیشتر کے لئے نصابی کتب پڑھنا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ایسے میں ان سے معلومات عامہ کی غیر نصابی کتب پڑھوانا ان سے سخت زیادتی اور ان کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔اب سمجھدار چینلز والے انھین محض تشریف آوری پر ہی انعام سے نواز دیتے ہیں۔انعام تو دینا ہی ٹھہرا مگر پروگرام بھی تو چلانا ہے۔چھوٹی انعامات ناظرین کو دوران پروگرام یا بعد از اختتام مل جائیں گے۔ ابھی آپ خود بھی کچھ جیتیں۔سوالوں کا جواب پوچھا تو پوچھنے والے ہی شرمندہ ہوں گے تو اس کا حل یہ ہے کہ مختلف ڈبوں میں انعامات رکھ دیے گئے ہیں اور ان پر مختلف کھلاڑیوں، فنکاروں اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے ممتاز لوگوں کی تصاویر چسپاں کر دی جاتی ہیں۔ جس کا نام پکاریں گے آپ اسی ڈبے کو کھولا جائے گا اور جو اس میں سے کار نکلے موٹر سائیکل فریج واشنگ مشین یا کھلونے والا بھالو آپ کی قسمت۔کچھ دبنگ قسم کے میزبانوں نے حاضرین کی معلومات عامہ جانچنے کی کوشش بھی کی مگر پھر اپنا سا ہی منہ لے کر رہ گئے۔
Pakistan
ایک سوال کیا گیا کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ کا تعلق کس ملک سے تھا؟ ایک صادق محب وطن کیسے گواراکر سکتا کہ مادر وطن کے نام پر آنچ آئے چنانچہ جواب آیا کہ پاکستان۔ میزبان اپناسا منہ لے کے رہ گیا۔ غالبًا کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ ہو گا جو اس قابل فخرکارنامے پر خوش نہیں ہوا۔ اگلاسوال ذرا مشکل تھا کہ امریکہ کے پہلے صدرکا نام بتائیں اپنے ملک کا تو یاد نہیں کہاں امریکے کے صدر کو یاد کرتے پھریں۔۔ان کی خاموشی پر ان کو اشارہ دیا گیا کہ امریکہ کا ایک شہر ان سے منسوب ہے۔ فورًا جواب آیا کہ شکاگو۔ جب دیکھا کہ میزبان کا رویہ کچھ حوصلہ افزا نہیں تو لاس انیجلس بھی بولا مگر میزبان نے جوابپھر بھی درست نہیں مانا۔ حالانکہ دونوں ہی امریکی شہر ہیں۔ جب سوال کیا گیا کہ حرکت کے قوانین کس نے دریافت کیے تو جواب آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ ہم تو اس جواب پر عش عش کر اٹھے۔جی ٹی روڈ کس نے بنائی کا جواب آیا کہ میاں شہباز شریف نے۔
اس میں شک نہیں کہ شیر شاہ سوری بھی اپنے وقت کا شہباز شریف ہی تھا مگر متعصب میزبان نے اس جواب کو بھی در خود اعتنائ نہ جانا۔پچھلے کسی پروگرام میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا نام پوچھا گیا تو جواب آیا ذوالفقار علی بھٹو۔ جواب دینے والا کوئی جیالا تھا یقینًا کچھ اشاریدیے گئے جن سے شخصیت بوجھنا تھی۔ اشارے کچھ یون تھے۔ منہاج القرآن،پی ٹی آئی، دھرنا، انقلاب۔ ان اشاروں کے بعد بھلا کیا مشکل تھا چنانچہ فرمایا گیا عمران خان۔ ایک سوال تھاکہ پاکستان کی واحد شخصیت کون سی ہے جوملک کی صدر اور وزیر اعظم بھی رہ چکی ہے؟ جواب آیا کہ نواز شریف۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت ملک کاصدر کون تھا کاجواب تھا آصف علی زرداری مندرجہ بالا چند مثالیں ہیں۔ جو ہمارے حافظے میں محفوظ رہ گئیں۔
ایسے ہی بے شمار جوابات ہیں جن پر بے ساختہ ہم قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ ہم تو اب ان کوئز پروگراموں کو بطور تفریحی پروگرام دیکھتے ہیں۔ پھر ہمیں لوگوں کے رویے پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ جو غلط جواب پر بھی انعام اس طنطنے سے مانگتے ہیں گویا کہ ان کا حق ہے۔ حکمرانوں کی عادات اب نچلے طبقے میں بھی پہنچ گئی ہیں۔ پوری قوم کا ہر فرد ہی اس قابل ہے کہ وہ حکمران بن جائے اس قوم کا۔۔