کیلیفورنیا: ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کو ورزش اور مناسب غذا دی جائے تو ان کی دماغی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔لیکن اس کے فوائد جوانی میں سامنے آتے ہیں اور وہ ڈپریشن اور دماغی تناؤ کا کم شکار ہوتے ہیں۔
اگرچہ دنیا بھر کے ماہرین بچوں کی صحتمند غذا اور مناسب ورزش پر زور دیتے ہیں لیکن اس ضمن میں تحقیق پہلی مرتبہ کی
گئی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریورسائیڈ کے سائنسدانوں نے چوہوں پر اس کے تجربات کئے ہیں جس کا اطلاق انسانوں پر کیا جاسکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غذا اور ورزش کے کم سنی کے اثرات پوری زندگی برقرار رہتے ہیں۔ اس تحقیق سے وابستہ ڈاکٹریٹ کے طالبعلم مارسل کیڈنے کہتے ہیں کہ ماہرین غذا اور ورزش کو الگ الگ کرکے دیکھتے ہیں لیکن ہم نے اسے پہلی مرتبہ ایک ساتھ دیکھا ہے اور اس کے اثرات پر غور کیا ہے۔
اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ابتدائی زندگی مٰں ورزش سے جو کچھ اثرات ہوتے ہیں ان میں سب سے پہلے دماغی تناؤ اور ڈپریشن شامل ہے۔ بچپن کی ورزش سے دماغ کا حجم بڑھتا ہے اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر انہیں جنک فوڈ کے نام پر میٹھا اور مرغن غذائیں دی جائیں تو پوری زندگی وہ اس کے عادی بھی ہوسکتے ہیں۔
یہ تحقیقات جرنل آف فزیالوجی اینڈ بیہیویئر میں شائع ہوئی ہیں۔ اس تجربے میں چوہوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں ورزش والے، بغیر ورزش والے، معیاری اور صحتمند غذا کھانے والے اور مغربی صحت دشمن غذا کھانے والےچوہے شامل تھے۔
تین ہفتوں تک چاروں گروہوں کے یہی معمولات رکھے گئے کہ وہ جنسی طور پر سرگرمی کی عمر تک جاپہنچے۔ اس کے بعد آٹھ ہفتے تک تمام معمولات ترک کردیئے گئے۔ پھر اس کے بعد ان کے برتاؤ، جسمانی ہارمون اور ورزش کی عادتوں کا جائزہ لیا گیا۔
جن چوہوں نے شکر اور چکنائی زیادہ کھائی تھی ان کی آنتوں کے بیکٹٰیریا یکسر بدلے ہوئے تھے۔ اس طرح خراب غذا کے مضر اثرات جوانی تک برقرار رہے۔ ابتدائی دور میں ورزش کرنے والے چوہوں لیپٹن کی زائد مقدار دیکھی گئی جو کم کھانے اور کم چربی کی وجہ بنتی ہے۔
یہ تحقیق کورونا وبا کے تناظر میں یوں اہم ہے کہ دنیا بھر کے بچے گھروں تک محدود ہیں اور سائنسدانوں نے گھر میں بھی ان کی ورزش پر زور دیا ہے۔