تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کب سے ضلع قصور میں بے قصوروں کی قتل گاہ سجی ہے 10 کم سن بچیوں اور ایک معصوم بچے کو زیادتی کے بعد ان کی لاشیں کچرا کنڈی ( گندگی کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی رہی ہیں 4جنوری کو پھر ایک سات سالہ معصوم کلی زینب گھر سے قرآن مجید کا سپارہ پڑھنے کے لیے گئی تھی کہ اسے اسی روز اغوا کر لیا گیا اور اسے بے غیرت درندہ صفت شخص نے زیادتی کرک ے لاش کو پھر کچر اکنڈی میں پھینک ڈالا چھ روز تک اغوا کے بعد اس کا کوئی اتا پتہ نہ مل سکا تھا ۔اس کے والد اور والدہ عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے بچی کے قتل کا سن کر وہ 10تاریخ کو واپس پہنچے کہ اسی روز ظالم شخص نے اس کی لاش کو گندگی کے ڈھیروں پر پھینک ڈالا تھا۔
معصوم بچی کے والد نے گلے شکووں کی لمبی داستاں رقم کی ہے کہ پولیس نے ان کی غیر موجودگی میں بچی کے چچا و دیگر عزیز و اقارب کی طرف سے اغوا کی اطلاع دینے پر بھی کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ ڈھونڈھنے کی کوشش بھی نہیں کی اور اپنی روایتی سستی کی روش جاری رکھی مورخہ 10جنوری کو اس کا مردہ حالت میں جسم گندگی کے ڈھیر پر پڑا ملا ڈاکٹرز کی رپورٹس میں پتا چلا ہے کہ اس کے ساتھ جنسی درندگی کے بعد ہی اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے ثناء خواں تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ایک سال میں12 معصوموںکا قتل اور لاشیں گندگیوں کے ڈھیر پر۔ آناً فاناً قصور کے بپھرے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور تمام راستے بلاک کر ڈالے مسلسل تین روز سے احتجاج جاری ہے ۔روتے پیٹتے اور آہ و زاریاں کرتے ہوئے لوگوں کا جلوس پہلے ہی روز ڈی سی اور اور ڈی پی اوکے دفاتر پہنچا مگر وہاں ریاستی دہشت گرد پولیس سے مڈ بھیڑ ہوگئی پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کر ڈالی جس سے دو افراد ہلاک اور درجن سے زائد گولیوں سے جان بلب ہسپتالوں میں پڑے ہیںپہلے اس قسم کے واقعات میں مارڈالنے والی 10بچیوں اور 1بچے کے ملزمان کو اگر حکمران گرفتار کرکے نشان عبرت بنا ڈالتے تو موجودہ واقعہ رو پذیر نہ ہوتااگر6روز قبل اغوا کی جانے والی زینب کے بارے میں تیز رفتاری سے پولیس کوششیں کرتی تو شاید بچی قتل ہونے سے بچ رہتی اور اسے زندہ حالت میں درندوں کے چنگل سے چھڑالیا جاتا مگر پولیس کا رویہ تو یہ ہوتا ہے کہ اگر فرد نے ظلم قتل ڈکیتی کی اطلاع ہی کیوں نہ دی ہو جب تک ان کی ” مٹھی گرم ” نہ کی جائے وہ لفٹ نہیں کرواتے۔
یہی وجہ ہے کہ معمولی چوری یا موبائل چھننے کی وارداتوں کی ابتدائی اطلاع بھی لوگ تھانہ میں درج کروانا مناسب خیال نہیں کرتے کہ الٹا پولیس کی جیبیں گرم کرنے کے لیے اس سے زیادہ رقم خرچ ہوجائے گی پھر تھانہ کچہریوں کے چکروں سے بندہ خود ہی تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور ایسے خرچوں سے الٹا اپنا ہی گھر اجاڑ بیٹھتا ہے مگر اس مخصوص اغوا پر اگر پولیس غیرت ایمانی کا ثبوت دیتی کہ ان کے ہاں بھی معصوم بچیاں ہیں تو بھرپور کاروائیاں کرکے بچی کے اغوا کنندہ وحشی فرد کو گرفتار کیا جاسکتا تھا اب تو تمام ہی سیاسی جماعتوں کے راہنمایان مذمت کے روایتی بیان جاری تو کر رہے ہیں مگر کوئی بھی ایسے واقعات تواتر سے رونما ہونے کی وجوہات جاننے یا انہیں روکنے کے لیے کوئی تجویز ہی نہیں دیتا ۔مقتولہ معصوم بچی کے والدین نے عمرہ سے واپس پہنچتے ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ان کی مدد کریں جس پر آرمی چیف نے فوری حکم کر ڈالا ہے کہ مسلح افواج سول انتظامیہ کی بھرپور مدد کے لیے سرگرداں ہوجائیں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی 24گھنٹوں میں آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی تھی جو کہ سپریم کورٹ میں پہنچ بھی چکی ہے اسی طرح پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے بھی ازخود نوٹس لیکر متعلقہ سیشن جج اور پولیس سے رپورٹ طلب کر رکھی ہے حکومت بھی سرگرم عمل ہے حتیٰ کہ وزیر اعظم پنجاب ودیگر حکومتی کارپردازوں کے سخت مذمتی بیانات بھی جاری ہوچکے ہیں خدا کرے حوا کی اس بیٹی کے ملزمان گرفتار ہو کر کیفر کردار تک پہنچ جائیں کہ اب تو نشاندہی کرنے والے افراد کے لیے ایک کروڑ روپے کے ا نعام کا بھی اعلان ہوچکا ہے خد اکرے روایتی سیاستدان اس واقعہ کی آڑ میں اپنی اپنی دوکانداریاں نہ چمکائیں ۔ہمارے قوانین میں تو گرفتاری پھر تفتیش ،عدالت میں چالان بھجوانے وہاں مہینوں سماعتوں گواہیوں کے بعد ملزمان کی طرف سے آگے سے آگے اپیلیں دائر کرنے کے اتنے مرحلے ہیں کہ کوئی بھی ملزم سالوں تک بھی سزا نہیں پاسکتا۔یہ ہمارے پرانے انگریز آقائوں کے دیے ہوئے قوانین کی وہ کمزوری ہے جس کا تا حال کوئی حل نہیں نکالا جا سکا کبھی کبھار پولیس Extra Judicial Killingsکے ذریعے ایسے ملزمان کو “مقابلہ ” دکھا کر جنم واصل کردیتی ہے مگر وہ بھی تبھی جب ” اوپر والے ” اس کا حکم دے ڈالیںقصورکے عوام ابھی تک ڈیڑھ سال قبل چار سو بچے بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کرکے ،ان کی وڈیو بنانے اور انہیں مسقتل بلیک میل کرکے اغلام بازیاں کرتے رہنے اور زنا کرنے کے جوواقعات پکڑے گئے تھے انہیں نہیں بھولے۔
ان درندوں کے ایسے بدبودار غیر اخلاقی افعال جیسے “کارہائے نمایاں “کو پریس اور میڈیا نے خوب اچھا لا مگر چونکہ ایسے اڈے بااثر افراد کے ملکیتی تھے اور مقامی منتخب افراد ایم پی اے وغیرہ کے بھی اس میں ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے تھے تو پھرایسے مقدمات کے ملزمان کی گرفتاریاں کیسے ہوسکتی تھیں اور بااثر گروہ سزائوں سے بچ رہا۔ زینب بچی تو اب ماں کی گود سے منوں مٹی تلے لحد میں جاچکی۔قصور شہر میدان جنگ بنا ہوا ہے مگر ہمارے حکمران اور ہمارے لوگ غالباً چند روز کے جلسے جلوس کے بعد اسے بھول جائینگے ملزم گرفتار بھی ہوگیا تو سابقہ مقدمات کی طرح اس مقدمے کا حشر اسی طرح کا ہو جانا بعید نہ ہے سر عام پھانسی کا مطالبہ تو بڑے ذور شور سے کیا جارہا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے بنائے گئے غیر اسلامی قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے اگر مذکورہ واقعات کے آئندہ انعقاد کو مستقل طور پر بند کر ڈالنا ہے اور زینب کے ملزم کو بھی قرار واقعی سزا دیا جانا مطلوب ہے تو پھر ہمیں مکمل اسلامی نظام نافذ کرکے شرعی قوانین کا نفاذ کرنا ہو گا کہ جس میں ایسے ملزمان کی سزا تو صرف سنگساری ہے اس وقت تو اینٹوں پتھروں سے ملزم کو عوام اس وقت تک نشانہ بناتے رہیں گے جب تک وہ ان پتھروں کے انبار میں غرق دفن نہیں ہوجاتا۔مگر آج کے دور میں چونکہ برسر اقتدار ٹولے سرمایوں کے بل پر ہی مقتدر ہو جاتے ہیں اس لیے وہ ایسے قوانین کے نفاذ کے راستے میں رکاوٹ خود ہیں۔ بھلا کیسے سود خور نودولتیے سرمایہ دار ،ظالم جاگیرادر،بدکردار وڈیرے اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار شرعی قوانین کا نفاذ برداشت کرسکتے ہیں کہ وہ ہی برسر اقتدار ہیںاور خود ہی اپنے آپ پر ایسے قوانین کا نفاذ کر لیویں کہ دن رات ان کے اوقات ایسے ہی “شغلوں مشغلوں” میں گزرتے ہیں جب تک اسلامی قوانین نافذ نہیں ہوتے ایسے غلیظ کام جاری رہیں گے اور ہم احتجاج کرکے رو دھو کر خاموش ہوجاتے رہیں گے!!!