تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال مجھے نہیں معلوم کہ بچوں کی کتابوں کے عالمی دن کو ہمارے پاکستان میں دھوم دھام سے کیوں نہیں منایا جاتا ،پاکستان میں بچوں کی کتابوں کا عالمی دن ہمیشہ خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ہم نے بہت سے دوستوں کو فون کیا جن کا تعلق سکول سے تھا کہ وہ اس دن بچوں کے لیے کتابوں کا سٹال لگائیں، لیکن تقریبا سبھی نے اسے فضول سمجھا اور بعض نے تو مذاق تک اڑایا ۔لیکن ایک بات سب میں مشترک تھی اس دن سے لاعلمی۔ہمارے علم میںآیا اور ہم حیران ہوئے کہ پاکستان میں کبھی یہ دن منایا گیا ہو اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑدیا، وہ پستی میں گر گئی۔ دوسری طرف ہم بہت سے مغربی دن بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں، جن کی بے شک اسلام میں اجازت بھی نہ،معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہو مثلاََ ویلنٹائن ڈے وغیرہ پر اس سال خوب خوب کالم لکھے گئے پروگرام کیے گئے ۔ مجال ہے جو بچوں کی کتابوں کے حوالے سے ایسے دھواں دار پروگرام ہوئے ہوں ۔ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔
بچوں کی کتابوں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد بچوں میں کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا کرنا ہے ۔ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اگرچہ آج ٹی وی انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کرلیا ہے ، لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ یہ تو ہم جب بچے تھے تب سے سن رہے ہیں کہ بچے قوم کی امانت ہیں ،اور ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں ،لیکن ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے (یعنی روشن مستقبل کے لیے )ہم کیا کر رہے ہیں ۔ہم نے بچوں کے لیے کیا بہت سا کتابوں کا سرمایہ جمع کر لیا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ماضی میں شائع ہونے والی بچوں کی کتابوں کو بھی دوبارہ شائع نہیں کیا ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اب ہمارے بچے بھی ہندی کارٹون، فلمیں وغیرہ دیکھتے ہیں۔ جس سے وہی کلچر پروان چڑھتا ہے۔بدقسمتی دیکھیں ہم بچوں کے لیے(روشن مستقبل کے لیے )اب تک کوئی اصلاحی چینل شروع نہ کر سکے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں اور ہمیں اپنے کلچر ،ملک،اسلام ،زبان سے کتنی محبت ہے۔
India
اگر ہم اپنے ملک کا موازنہ بھارت سے کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا نیٹ ورک ،میڈیا کھڑا کر دیا ہے کہ اس کی مثال دینا مشکل ہے ۔اب وہ اپنا کلچر،زبان ،مذہب بذریعہ کارٹون،فلمیں ہمارے بچوں کو سیکھا رہے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے ماہنامہ ،پندرہ روزہ،ہفت روزہ رسائل و میگزین بچوں کے لیے شائع ہوتے ہیںاسی طرح تقریبا ہر اخبار بھی ایک دن بچوں کے لیے ایک صفحہ یا میگزین شائع کرتے ہیں ۔ ان میں سے چند ایک کی تعداد اشاعت بھی قابل ذکر ہے ۔ اکثر ایسے ہیں جن میں بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ لیکن بچوں کو زیادہ تر فرضی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں حقیقت کا عمل دخل بہت کم ہوتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا بچوں کو تاریخ ،اسلام،سائنس دانوں کی زندگی وغیرہ پر زیادہ مواد دیا جاتا ۔پاکستان میں بچوں کے لیے لکھی جانے والی کتب کی تعدا دشرم ناک حد تک کم ہے ۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔اچھے لکھاریوں کا کم ہونا ۔قاری کم ہیں۔کتاب شائع کرنے کے لیے سرمائے کا نہ ہونا ۔بچوں کے ادب کو اہمیت نہ دینا وغیرہ پاکستان میں بچوں کے لیے جو میگزین و رسائل شائع ہو رہے ہیں ان میں سے چند قابل ذکر درج ذیل ہیں ۔
ماہنامہ پھول لاہو ریہ رسالہ ادارہ نوائے وقت کے زیراہتمام شائع ہوتا ہے ۔ بچوں کا اسلام مشہور اخبار روزنامہ اسلام کے زیر اہتمام اسلام آباد سے شائع ہوتا ہے ۔ماہنامہ تعلیم و تربیت لاہور۔ یہ رسالہ مشہور اشاعتی ادارے فیروز سنز لمیٹڈ کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے ۔ فیروز سنز لمیٹڈ کے کریڈٹ میں بچوں کے ادب کے حوالے سے اتنی کتب ہیں جو کسی اور اشاعتی ادارے کے حصے میں نہیں آ سکی ہیں۔ماہنامہ ہمدرد نونہال کراچی ۔ یہ پاکستان میں بچوں میں بہت مقبول ہے ۔ اس کی ادارت مشہور طبی اور سماجی شخصیت جناب حکیم محمد سعید (شہید) کی زیرِ نگرانی تکمیل پایا کرتی تھی۔ماہنامہ جْگنو لاہور ۔ یہ رسالہ بادشاہوں۔ شہزادوں ۔ شہزادیوں اور جادوگروں کی کہانیوں پر مشتمل ہے ۔ماہنامہ بچوں کی دنیا لاہور بھی بچوں کی خوبصورت کہانیوں کا گلدستہ ہے ۔ ایک منفرد پندرہ روزہ ،” روضتہ اطفال “ہے یہ ایک ایساپندرہ روزہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ اس میں کوئی جھوٹی کہانی یا واقعہ شائع نہیں کیا جاتا ۔اور اس کی تعداد اشاعت بھی کافی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں بچوں کے لیے میگزین و رسائل شائع ہوتے ہیں ۔کچھ نئے میگزین و رسائل کا اجرا بھی ہوا ہے ۔
موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لیے آج ماہرین ِ نفسیات بچوں کے لیے مطالعے کو لازمی قرار دے رہے ہیں ۔ہمارے بچے زیادہ تر مارھاڑ سے بھر پور گیم دیکھ رہے ہیں یا کارٹون جن سے تشدد کو پسند کرنے لگتے ہیں اس لیے کتابوں کی طرف بچوں کو راغب کیا جانا ضروری ہے، گیم ،کارٹون کی موجودگی میں بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام ہے ۔ اس کا حل یہ بھی ہے کہ بچوں کے لیے ایک چینل ہو جس میں بچوں کو سچی کہانیاں ،مزاحیہ کارٹوں ،ہمارے کلچر ،زبان ،مذہب کی تبلیغ کی جائے ۔اس کے باوجود کتابوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جِلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔بچوں میں مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں والدین اور اساتذہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ہمارے لکھاریوں کو بھی اس بارے میں لکھنا چاہیے ۔جتنے بڑے لکھاری ہیں، ان میں سے اکثر پہلے بچوں کے لیے لکھتے رہے ہیں ۔
Urdu
مثلاََ نظیر اکبرآبادی کو اردو ادب کا اولین عوامی شاعر کہا جاتاہے ،جنہوںنے بچوں کے ادب پر بہت ساری اہم نظمیں لکھیں ۔ان کے علاوہ مولانا محمد حسین آزاد ،امتیاز علی تاج ، اسماعیل میرٹھی، حفیظ جالندھری، کرشن چندر، شوکت تھانوی، ڈاکٹر ذاکر حسین، احمد ندیم قاسمی، ڈپٹی نظیر احمد، شبلی نعمانی ، حجاب امتیاز علی، علامہ اقبال ، حالی، عصمت چغتائی، قتیل شفائی ، قیصر تمکین، واجدہ تبسم، جیلانی بانو ، انوار صدیقی، ڈاکٹر شکیل الرحمن’علی ناصر زیدی، غلام مصطفیٰ ،صوفی تبسم ، ماہرالقادری ، عبدالحمید نظامی ،تنویر پھول ،ڈاکٹر اسلم فرخی ، اشتیاق احمد ، نذیر انبالوی ،ذکیہ بلگرامی ”ناصرزیدی’وغیرہ میں نے خود ایک عرصہ تک بچوں کے لیے لکھا ہے ۔اب بھی کبھی کبھار بچوں کے لیے کچھ نا کچھ لکھنے کی کو شش کرتا ہوں ۔ ہم نے اپنے والدین سے ،دادا سے بچپن میں بہت سی کہانیاں سنیں وہ اب تک یاد ہیں ،ہر کہانی کی ابتدا ایک تھا بادشاہ ۔ سے ہوتی اور اختتام ان الفاظ پر ۔۔ اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے ۔آج بھی یہ الفاظ اپنے اندر محبت لیے میرے کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔میں کہ رہا تھا کہ عصر حاضر میں بچوں کے ادب پر بہت کم لکھاجارہاہے دور حاضر میں کمپیوٹر ٹکنالوجی اور مختلف گیمز نے بچوں کو مشغول کررکھا ہے ایسے میں والدین کافریضہ ہونا چاہئے کہ اپنی اولاد کوکتابوں سے روشناس کروائیں ۔
آج والدین اپنے بچوں کو آئس کریم یا برگر کے لیے تو بخوشی پیسے دے دیتے ہی لیکن وہ اپنے بچوں کو کتاب خرید کر بطور تحفہ دینے کو تیار نہیں ہیں ۔اسکے علاوہ اب نئے لکھاریوں میں سے بہت کم ہیں جو بچوں کے لیے لکھتے ہیں ۔دوسری طرف بچوں کے لیے لکھنے والے اب انتہائی بوڑھے ہو گئے ہیں ،وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اب ان کے لیے بچوں کے لیے لکھنا مشکل نہیں ہے ۔حالانکہ بچوں کے لیے لکھنا مشکل ترین کام ہے ،بعض خود کو بڑا لکھاری سمجھنے والے بچوں کے لیے نہیں لکھتے مطلب مشکل کام نہیں کرتے اور اس لیے بھی کہ بچوں کے لیے لکھنا ان کی نظر میں اہم نہیں ہے ۔ جہاںتک بچوں کے ادب کا ،کتابوں کا تعلق ہے تو حالت تشویشناک ہے ۔ بچوں کی کتابوں کا عالمی دن بہت سے ممالک میں منایا جاتا ہے ۔یہ دن سب سے پہلے IBBY کی طرف سے تجویز کیا گیا ۔اور 2 اپریل کو انٹرنیشل چلڈرن بک ڈے(ICBD )بچوں کی کتابوں کا عالمی دن غالباََ 1967 ء کو پہلی مرتبہ منایا گیا۔ اس دن دنیا میں بچوں کی کتابوں کے سٹال لگائے جاتے ہیں ،بچوں کا ادب لکھنے والوں کو سراہا جاتا ہے ،ایوارڈ وغیرہ دیئے جاتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کچھ نہیں کیا جاتا ۔اس بارے میں ہماری والدین ،اساتذہ ،صحافیوں ،ادیبوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں ۔تاکہ ہم اپنے ملک و قوم کے مستقبل کی بہتر پرورش کر سکیں ۔اس سلسلے میں میری گزشتہ دنوں محمد ندیم اختر صاحب (کوارڈی نیٹر کاروان ادب پاکستان) سے تفصیلی بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سالوں کی نسبت پاکستان میں بچوں کے لیے کتب کی اشاعت اور خریداری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
Pakistan
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال ایک طرف یہ بحث جاری تھی کہ پاکستان میں کتب بینی کا شوق ماند پڑتا جارہا ہے اور ہر فورم پر اس پر مذاکرے دیکھنے میں آتے تھے وہاں خصوصا بچوں کے لیے کتب کی اشاعت خوش آئندہ بات ہے ۔ گذشتہ سال لاہور کے بڑے پبلشنگ ادارے رابعہ بک ہائوس نے بچوں کے لیے بیک وقت 12ادیبوں کی الگ الگ کتب شائع کیں ، مزید سال 2015میں اسی ادارے نے بچوں کے لیے بیک وقت 30ادیبوں کی کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا ۔ ایسے ہی لاہور کے ہی ایک ادارے علم و عرفان اور نستعلیق نے بھی بچوں کے لیے کتب کی اشاعت کو یقینی بنایا ۔نیشنل بک فائونڈیشن سرکاری سطح پر کتب کی اشاعت کا مرکز ہے ۔ کچھ سالوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس ادارے نے انعام الحق جاوید کی سربراہی میں اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے معیاری اور سستی کتب کی اشاعت کو یقینی بنایا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے کتب میلوں ، کانفرنسوں جیسا کہ اردو کانفرنس ، الحمرا کانفرنس ، کاروان ادب کانفرنس وغیرہ کے انعقاد نے لوگوں کو کتب بینی کی جانب راغب کیا ۔ ان کتب میلوں میں لوگ فیملی ممبران کے ساتھ جوق در جوق شرکت کررہے ہیں ، یہ ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے ۔ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔