والدین کی ذمہ داری میں بچوں کی صحت اور عمدہ تعلیم و تربیت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بغیر صحت کے نہ تعلیم ہوسکتی ہے اور نہ ہی تربیت، اور اگر والدین کی لاپرواہی کے نتیجے میں بچوں کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے یا وہ اپاہج ہوجاتے ہیں تو اس کے بارے میں والدین ہی جواب دہ ہوں گے۔ اپاہج بچے خود اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے اور پھر سماج کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئیں گے۔
ہر سال لاکھوں بچے ایسی بیماریوں سے مرتے ہیں جنہیں آسانی سے موجودہ ٹیکے لگاکر روکا جاسکتا ہے۔ جن بچوں کو ٹیکے لگ جاتے ہیں وہ ان خطرناک بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ یہ ٹیکے بچوں کو تپ دق (ٹی بی) گلا گھونٹو، کالی کھانسی، ٹیٹنس، خسرہ اور پولیو سے محفوظ رکھتے ہیں۔ بچے کو یہ ٹیکے انجکشن سے لگائے جاتے ہیں یا ان کی خوراک منہ سے پلائی جاتی ہے۔ ٹیکے بچوں کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ٹیکے تب ہی اثر دکھاتے ہیں جب وہ بیماری ہونے سے پہلے لگوادیے جائیں۔ جس بچے کو ٹیکے نہیں لگے ہیں اس کے بیمار پڑنے، ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوجانے، اس کے مرجانے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔
سبھی والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچے کو ٹیکے کیوں، کب ، کہاں اور کتنی بار لگوانے چاہیے۔ اور اگر بچہ معمولی طور پر بیمار ہے یا کمزور ہے تو بھی اسے ٹیکے لگوانے چاہیے۔ ہر بچے کی زندگی کا پہلا سال بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کو پہلے سال میں ہی کئی طرح کے ٹیکے لگوانے چاہیے۔ گھنی آبادی والی تنگ بستیوں میں بیماری تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ ایسی تنگ جگہوں میں رہنے والے سبھی بچوں کو بیماریوں سے بچائو کے ٹیکے ضرور لگوائے جانے چاہیے۔
اگر بچے کو ٹیکے نہیں لگے ہیں تو اسے خسرہ، کالی کھانسی اور دوسری جان لیوا بیماریاں لگنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ ان بیماریوں کے بعد بچ جانے والے بچے کمزور رہتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بڑھوتری اچھی نہ ہو یا وہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوجائیں اور ان کی موت بھی ہوسکتی ہے۔
ٹیکے اگر صحیح عمر میں یا اس کے یک دم آس پاس لگوائے جائیں تب ہی ان کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ بچوں کو ٹیکے پورے لگوانا ضروری ہے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ ٹیکے اثر نہ دیکھائیں۔ اگر کسی بچے کو کسی وجہ سے پہلے سال میں سبھی ٹیکے نہ لگوائے جاسکے ہوں تو اسے جلد از جلد سبھی ٹیکے لگوادینا ضروری ہے۔ ٹیکوں کا چارٹ عمر پیدائش کے فوراً بعد چھ ہفتے دس ہفتے ٹیکے کا نام بی سی جی اور پولیو ڈی پی ٹی اور پولیو ڈی پی ٹی اور پولیو چودہ ہفتے نو مہینے ڈی پی ٹی اور پولیو خسرہ + وٹامن اے حفاظتی ٹیکہ جات کا شیڈول پہلی بار : پیدائش کے فوراً بعد پولیو کے قطرے 0 بی سی جی
دوسری بار : ڈیڑھ ماہ بعد پولیو کے قطرے ١ پینٹا ویلنٹ ١ نیمو کوکل ١ تیسری بار: ڈھائی ماہ بعد ۔ پولیو کے قطرے ٢ پینٹا ویلنٹ ٢ نیمو کوکل ٢ چوتھی بار: ساڑھے تین ماہ بعد ۔پولیو کے قطرے ٣ پینٹا ویلنٹ ٣ نیمو کوکل ٣ پانچویں بار: ٩ ماہ کے فوراً بعد ۔ خسرہ کی پہلی خوراک چھٹی بار : ١٥ ماہ کے فوراً بعد ۔ خسرہ کی دوسری خوراک
بچوں کو ایک سال پورا ہونے کے بعد بوسٹر خوراک دی جاتی ہے۔ یہ خوراک بچوں کی اچھی طرح حفاظت کرتی ہے۔ بی سی جی کا ٹیکا بچے کو ٹی بی سے بچاتا ہے۔ یہ ٹیکا بچے کی پیدائش کے ایک ماہ کے اندر اندر لگ جانا چاہیے۔ ڈی پی ٹی کا ٹیکہ بچے کو تین بیماریوں (کالی کھانسی، گلا گھونٹو اور ٹیٹنس) سے بچائو کے لیے لگایا جاتا ہے۔ سبھی بچوں کو پولیو کی خوراک ضرور پلائی جانی چاہیے، کہیں بھی ہو۔ پولیو ہونے کی وجہ سے بچے کے ہاتھ پائوں بے جان ہوجاتے ہیں جس سے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
Children
بچوں کو خسرہ کے ٹیکے لگنے چاہیے؛ کیوں کہ خسرہ کی وجہ سے بچہ لاغر ہوجاتا ہے۔ دماغی کمزوری آجاتی ہے۔ سننے اور دیکھنے کی طاقت کمزور ہوجاتی ہے۔ خسرہ کی وجہ سے بچے کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ ٹیکہ نہیں لگایا گیا اور بچے کو زخم ہوجاتا ہے تو اس میں ٹیٹنس کے جراثیم پیدا ہوسکتے ہیں جو بچہ کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔ اسی ٹیکہ سے کالی کھانسی اور گلا گھونٹو جیسے مرض سے بچے کو بچایا جاسکتا ہے۔ وٹامن اے بچے کو رتوندھی سے بچاتا ہے اور بیماریوں سے لڑنے کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔۔۔ والدین عام طور پر اگر بچے کو بخار، سردی، زکام، دست یا کوئی دوسری بیماری ہوتی ہے
تو ٹیکے نہیں لگواتے ہیں، حالانکہ معمولی طور پر بیمار بچے کو ٹیکہ لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح آج کل پولیو ہمارے خطے میں انتہائی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔لہٰذا اگر کسی کا بچہ ویکسین یا حفاظتی قطروں سے رہ جائے تو مقامی محکمہ صحت کی موبائل ٹیموں یا مقامی شفاخانوں سے رابطہ کرکے بچے کو قطرے ضرور پلوائیں جائیں۔مذکورہ ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم شہر کے بڑے ہسپتالوں سے کافی بوجھ کم کرسکتے ہیں۔