تحریر : اقراء ضیاء کراچی گزرے دنوں کا قصہ ہے٫ ایک خوبصورت روز تھا. ہر کوئی حضورۖ کی وِلادت کی خوشیاں منا رہا تھا. ہر طرف بچوں کی چہل پہل اور ہر معصوم چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی٫ اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی. دروازہ کھولنے پر میری نظر اِک ایسے معصوم چہرے پر پڑی جس کی عمر ٦ سال کے قریب ہو گی٫ جس کے بال کچھ بکھرے ہوئے دکھائی دیے٫ جس کے چہرے پر اِک اُداسی چھائی ہوئی تھی اور وہ چہرہ مٹی سے بھرا ہوا میلا دِکھائی دیا اور آواز کچھ یوں سُنائی دی کہ خوشی کا روز ہے ٫ سب خوشیاں منا رہے ہیں٫ مگر میرے پاس پہننے کو کپڑے نہیں٫ کھانے کو کھانا نہیں اور پینے کو پانی نہیں. باجی اگر آپ کچھ مدد کر دیں گی تو اللہ آپ کا بھلا کرے گا. اُس بچے کی حالت دیکھ کر کسی پتھر دِل کو بھی ترس آجاتا . اُس بچے کو پانی پیلاتے وقت میری نظر اُس کے منہ میں پڑے گٹکے پر پڑی٫ پھر میری ذات سوال کئے بنا نہ رہ سکی اور پوچھنا چاہا کہ کیوں کھاتے ہو تم گُٹکا ؟ ُبچے کے جواب نے میری آنکھو سے آنسوبہادیے. اُس کا کہنا تھا کہ:
“میری ماں جو نہیں٫ اسی وجہ سے کوئی مجھے روکنے والا نہیں”
اِس ایک جواب نے اِس کی اِس حالت کو بیان کر دیا ٫ اور یہ سُنتے ہی میری آنکھیں گھر آئیںاور اپنی حیثیت کے مُطابق میں نے اِس کی مدد کی لیکن اِس کے چلے جانے کے بعد نہ جا نے کیوں اُس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس معصوم جیسے کئی اور لاکھ بچے یتیم ہونگے جن کے یتیم ہو جانے کے بعد لاکھوں بچے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں.
ہمارے ملک میں کئی ایسے اِدارے ہیں جو یتیم اور بے سہارا بچوں کو سہارا فراہم کرتے ہیں . لیکن اِس کے باوجود لاکھوں یتیم بے سہارا کُھلے عام سڑکوں پرگھوم رہے ہیں. خاص کر وہ علاقے جو شہر سے دُور ہیں اور گنجان آباد علاقوں کے رہائشی ہیں . اِن کے والدین کے دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعدانہیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا٫ یہاں تک کہ رشتہ دار بھے اِن کو بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں یا تو اِن کو یتیم اِداروں کی نظر کر دیتے ہیں. پھر یہ ایسی معاشرتی بُرائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اِن سے چھٹکارا پانا اِن کے لئے نہایت مشکل کام ہو جاتا ہے.اور والدین چاہے تعلیم یافتہ ہوں یا تعلیم سے محروم ہوں لیکن وہ اپنی اولاد کو کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے.
Drugs
پاکستان کے ایسے چھوٹے بڑے شہر جو منشیات ٫ گُٹکا اور دوسری ایسی مضرِ صحت چیزوں کا شکار ہیںاور اُنہیں کوئی روکنے والا نہیں. دواصل سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ک دُکاندار نے کسطرح اس معصوم بچے کو گُٹکا فراہم کر دِیا . اور اِس جیسے ناجانے کتنے معصوم بچے گُٹکے کا استعمال کُھلے عام کر رہے ہیں.اِن بچوں کی زندگیاں تباہ کرنے میں صرف گھر والوں کا ہی ہاتھ نہیں بلکہ معاشرے کا بھی ہاتھ ہوتا ہے. جیسا کہ دُکاندار جو گُٹکا اور نشہ آور چیزیں اِن بچوں کو کچھ پیسوں کی خاطر بیچتے ہیں.
ِحتہ کہ٨ ١ سال سے کم عمر کے نوجوان منشیات٫ گُٹکا اور دوسری غیر مضر چیزوں کا استعمال کھلے عام کر رہے ہیں . جنہیں نہ ہی کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی کوئی اِن کی رہنمائی کر رہا ہے. منشیات کا استعمال چھوٹے بڑے علاقوں میں ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ اِس کی فراہمی کھلے عام یونیورسٹیوں٫ کالجوں٫اور اسکولوں میں دستیاب ہے.
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر والدین اپنی زمہ داریاں بخوبی کیوں نہیں نباہ رہے؟ آخر وہ اپنی اولاد کی سرگرمیوں سے واقف کیوں نہیں؟ جبکہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں منشیات کا استعمال کرنے میں خواتین کی شرح سب سے زیادہ ہے . کچھ لوگ اس کا استعمال ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں.
دراصل ذہنی سکون تو مِل جاتا ہے لیکن اِس سے انسان کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور انسان کا جسم اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے. مگر نشے کے عادی لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں. میری اِس مُلک میں رہنے ہر اُس شخص سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے اپنی زندگیوں کو اِسطرح تباہ نہ کیجئے اور جو بچے اِس کے استعمال میں ملوث ہیں انہیں اپنا سمجھ کے روکا جائے اور گورنمنٹ کو چاہیے کہ منشیات بنانے والی فیکٹریوں کو بند کیا جائے اور اس کی روک تھام کے لئے کوششیں کی جائیں تاکہ آنے والی نسل اِس لعنت سے بچ سکے.