اب بھی وقت ہے

Power

Power

تحریر : واحد علی نقشبند
خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ‘‘ایک اعرابی کے بچے کئی دنوں سے بھوکے تھے۔ایک دن بچوں کو لیے، پتھروں سے جھولی بھری خانہ کعبہ ایا، اور مخاطب کر کے کہنے لگا ہم کئی دنوں سے بھوکے ہیں ۔ہمیں کھانا چاہیے،اگر کھانا نہ ملا تو ہم پتھر برسائیں گے۔۔یہ بات ابھی اس منہ سے نکلی ہی تھی کی کعبۃ اللہ کی چھت سے اشرفیوں کی تھیلی گر پڑی۔اواز ائی یہ لے اپنا اور بچوں کا پیٹ پال ، اعرابی نے جواب دیا ائے اللہ! مجھے اشرفیا ں نہیں روٹی چاہیے ۔آ ن کی آن میں کعبۃ اللہ کی چھت سے روٹی اگئیں۔جو لوگ وہا ں موجود تھے۔۔وہ حیران ہوئے ،اعرابی کو کہنے لگے تم نے اشرفیوں کے بدلے روٹیوں کو کیو ں ترجیح دی ؟ ۔۔ اس نے جواب دیا جتنی چیز کا بار انسان اٹھاسکتاہے، وہی اٹھائے ،ہم روٹی کا حق تو ادانہیں کر سکتے ۔اشرفیوں کا کیو نکر اداکر یں گے؟ ۔ ہمیں اتنا ہی مانگنا چاہیے جتنا کہ ہم یاد رکھ سکیں۔

انسان کو حق کی ادائیگی خواہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہو ،یا بندوں کا یادرکھناچاہیے،،یہ واقعہ ایک عادل حکمران کے دور حکومت کا ہے ، کہ جس میں اعرابی کے سوال سے پہلے جواب اگیا۔یہ اس دورکی بات ہےجب مسلمانوں نے کسی کے اگے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا ۔سادگی ابناتے تھے ۔فارن اکاؤنٹس کا رواج تھا،نہ اف شور کمپنیو ں کے مالک تھے ۔ان کا کام جہاد اور اجتہاد تھا۔ حکمرانوں کو ادراک تھاکہ حکومت ان کے پاس امانت ہے اس کے متعلق باز پرس ہو گی۔

بہ الفاظ دیگر ان کی ترجیح اخرت تھی ۔ سولہو یں صدی کے علم سیاست کو ازسر نو مرتب کرنے والے ۔ ‘‘دی پرنس، ،کے مصنف میکیاولی جو مذہب اور اخلاق سے عاری لادین سیا ست کے داعی تھے ،میں بادشاہت کا نظریہ پیش کرتے ہیں ،لکھتے ہیں ۔۔‘‘ا یک مطلق العنان بادشاہ جو شر کو دبانے کے لئے شرکا ہی کا استعمال کرتا ہو ۔کسی بھی اخلاق ومذہب کا پابند نہ ہو ہر قسم کے مکر فریب جوڑ توڑ کا ماہر ہو سازش کر تاہو ،ہر ممکن طریقے سے اپنی اقتدار کو باقی رکھتاہو ۔ ۔کسی قانون اور قاعدے کی متعین شکل ضروری نہیں بلکہ وہ قاعدہ جو اقتدارکو بحال رکھنے کے لیے مفید ہو۔۔وہی بہتر حکمران ہے،، دوسری جگہ لکھتے ہیں۔۔‘‘

نیکی ایک واہمہ سے زیادہ کچھ نہیں اصل شئے برائی ہے کہ بدی کس طرح کی جاتی ہے۔اور اس کے لیے کو ن سا وقت موزوں ہے ۔اس میں خوبیوں کا ہونا ضروری نہیں لیکن اس کا (نمائشی طورپر)دکھائی دینا ضروری ہے، ،۔۔یہ اس شخص کے خیالات ہیں،جس کوعلم سیاست کا بانی کہاجاتا ہے ۔ جو اس ظالمانہ قسم کے لادین سیاست کو انسانیت کے لیے بہترین نظام سمجھتاتھا۔۔ انگلستان کے بادشاہ جیمزاول نے بادشاہت کی حمایت میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس نے کہا تھاکہ ‘‘بادشاہ کسی کے سامنے جوابدِہ نہیں ہوتااور اس کی ہر بات قانون ہوتی ہے۔

موجودہ سیاست کا مقصد اقتدار کا حصول ہے ۔ہر پارٹی حکومت حاصل کر نے کے لیے ناقابل عمل وعدے کرتی ہے ۔او ر پارٹی مفاد قومی مفاد پر مقدم سمجھا جاتا ہے حزب اقتدار ،حزب احتلاف میں احتیارات اورمفادات کی جنگ ہوتی ہے ۔جس میں عوام پس جاتے ہیں۔ جمہوری حکومت میں ہرشحص کو مذہبی ازادی حاصل ہوتی ہے ۔لیکن اس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی شحص عوامی ضرویات کی حقانیت پرتمام اسمانی کتابوں سے دلیل پیش کرے ۔تو بھی اس کی بات قا بل توجہ نہیں ،جب تک عوامی نمائندے اس کی تائید نہ کریں۔اور اس کے بر عکس اگر کوئی چیز ،کام ساری اسمانی کتب میں اور مذاہب میں حرام ہو ،مگر نمائند ےاس کو ٹھیک کہہ دیں تو جائز ہو گی ۔ وطن عزیز میں ایسے کئی قانون بن چکے ہیں ،جو مذ ہب سےمتصادم ہیں۔عوام سردیو ں میں گیس اور گرمیوں میں بجلی کے لیے ترستے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ۔جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ہے ۔ اگ اور بارود کا کھیل جاری ہے ۔قاتل مقتول دونو ں اپنے فعل سے لاعلم ہیں ۔ یہ سب کیا ہے ۔۔ ؟کیو ں ہو رہا ہے ہی سب کچھ۔۔؟ اج کےمسلمان نے اسلامی تعلیمات چھوڑ دی ۔اور مادی اسباب کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔جس کی سزا ،دھماکوں بے وقت بارشو ں ،سیلابوں،زلزلوں،قحط ،بے روزگاری،کی صورت میں دی جارہی ہے ۔حکمرانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔

اگر یہ سطحی کام کے بجائےبنیادی کام پرتوجہ دیں ،جماعتی مفاد پر قومی مفادکو ترجیح دیں ۔میانہ روی کفایت شعاری خود احتسابی احتیار کریں۔ کوئی ناممکن کا م نہیں، جیسے تنخواہ دیگر اخراجات کے کا بل قومی اسمبلی میں چند لمحوں میں پاس ہو سکتاہے۔اس طر ح ملک قوم کی بھلائی کے ایک ہوجائیں ،تو کیا حرج ہے۔اسی طرح اگر خلوص دل سے پاکستان کی سلامتی وترقی کے ایجنڈے پر عمل پیراہوں۔ تو چند سال میں ایک معاشی قوت بن سکتے ہیں۔ جب حکمران نیک اور قول فعل میں صادق ہونگے ۔۔تو اعرابی کی طرح ہماری دعا بھی ردّنہیں ہوگی۔

Wahid Ali Naqshband

Wahid Ali Naqshband

تحریر : واحد علی نقشبند