تحریر : سید امجد حسین بخاری رانا ٹائون لاہور کے نواح میں موجود ایک پسماندہ ہاوسنگ سوسائٹی ہے، جہاں پر ملک کے دور دراز علاقوں سے لاہور مزدوری کے لئے آئے ہوئے افراد آباد ہیں۔ گذشتہ روز میں وہاں کچھ دوستوں سے ملنے کے لئے گیا جس گھر میں مقیم تھا وہاں سے دس سال کے ایک بچے کو ٹھنڈا پانی لینے کے لئے گھر کے دروازے سے ملحقہ دکان پر بھیجنا چاہا مگر اس بچے کی والدہ پائوں پڑ گئیں کہ میرے بچے کو پانی لینے نہ بھیجیں میں اس غیر متوقع رویہ سے یکدم پریشان ہو گیا۔
ان سے وجہ جاننا چاہی تو ایک لمبی داستان سننے کو ملی۔ ان کے پاس موجود خبروں کے مطابق ان کے محلے سے تین بچے پکڑے گئے۔ کون بچے تھے؟ کس کے بچے تھے؟ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں تھی۔پھر انہوں نے بتایا کہ ایک برقع پوش خاتون ایک بچے کو اغوا کرکے لے جا رہی تھی بچے نے شور ڈالا تو مقامی لوگوں نے اس خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ تھانہ رانا ٹائون سے اس واقعہ کے بارے میں معلومات لینا چاہی اور پوچھا بھی گیا کہ لوگوں نے کسی اغوا کار خاتون کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا؟ وہاں موجود اہلکاروں نے اس واقعہ سے مکمل انکار کیا۔ یہ تو ایک چھوٹی سوسائٹی کی داستان ہے۔
راقم رانا ٹائون کے بعد جی ٹی روڈ پر موجود دیگر رہائشی علاقوں رچنا ٹائون، امامیہ کالونی، شاہدرہ وغیرہ میں بھی گیا وہاں پر بھی تمام علاقوں میں ایسی ہی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ لوگ بچوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے پریشان تھے، اکثر تعلیمی ادارے جو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھل گئے تھے ایک بار پھر بند کردئیے گئے ہیں۔ ایک نجی سکول کے پرنسپل سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا لوگ بچوں کو سکول بھیجنا ہی نہیں چاہتے۔ خوف اور سراسیمگی کی فضاء ہے۔ لوگوں کا انتظامیہ، پولیس اور سیکورٹی کے اداروں سے اعتماد ختم ہو گیا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کوئی نادیدہ قوتیں ملک میں ایسی فضاء قائم کرکے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن مجھے بھی باقی باتوں کی طرح یہ بات بھی ایک افواء ہی لگی۔ نجی یونیورسٹی میں نفسیات کی معلمہ دردانہ مقدس سے جب گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے بچوں اور والدین پر بہت خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ اس خوف سے نکلنے کے لئے والدین اور بچوں کو ایک طویل وقت درکار ہوگا۔ نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی شیراز حسنات کا کہنا تھا کہ واقعات میں حقیقت کم اور افواہوں کا زیادہ عمل دخل ہے۔گذشتہ دنوں آئی جی پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا اور آیڈیشنل آئی جی آپریشنزشہزادہ سلطان نے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔اس موقع پر سیکرٹری داخلہ پنجاب میجر(ر) اعظم سلمان بھی موجود تھے۔
Mushtaq Ahmed Sukhera
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا کہنا تھا کہ 2011ء سے لیکر جولائی 2016ء تک 6793 بچے مسنگ تھے، جن میں سے 6661 گھروں میں واپس پہنچ گئے یا انھیں بازیاب کر الیا گیا، اس وقت چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے پاس 168 بچے موجود ہیں جن کے والدین اور عزیزو اقارب کو تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت کوششیں جاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سال اغوا برائے تاوان کے ابتک صرف 4 کیسسز درج ہوئے تھے اور اغوا ہونے والے چاروں بچے بحفاظت بازیاب کرلیے گئے تھے، جبکہ 2015میں اغواء برائے تاوان کے 16کیسز درج کئے گئے تھے۔آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف گزشتہ دو 2015-16 میں صوبے بھر میں 1901 بچے لاپتہ ہوئے۔ جن میں سے 1532 خود بہ خود گھروں کو واپس آگئے جبکہ 283 کو پولیس کی مدد سے ان کے والدین تک پہنچایا گیا۔میں واپس آنے والے 1808 بچوں سے کی گئی پوچھ گچھ کے بعدجووجوہات سامنے آئیں اس کے مطابق، 795 بچے والدین کے سخت رویہ ، 138 خاندانی جھگڑوں ، 111 میاں بیوی کی علیحدگی، 83 سکولوں یا مدرسوں میں بدسلوکی، 74 رشتہ داروں کے ساتھ ، 51 جبری مشقت یا بھیک مانگنے، 42 جنسی زیادتی، 29 معذوری کی بناء پر جبکہ 392 ماں باپ سے بچھڑنے والے بچے شامل تھے۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے ان سے سوال کئے تو انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ لاہور میں اغواء ہونے والے تمام بچوں کا ڈیٹا میرے پاس نہیں ایک دو روز میں سار ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد میڈیا کوآگاہ کردوں گا جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جس میں 2گرفتار ملزمان میں سے ایک نے انکشاف کیا ہوا کہ اس نے 100سے زیادہ بچے اغوا ء کر کے کراچی بھجوائے ہواگر کوئی ایسی بات ہوئی تو اس کیلئے سپیشل ٹیم تشکیل دی جائے گی جو ان بچوں کو بازیاب کروائے گی۔لاہور پریس کلب میں موجود صحافیوں نے الزام عائد کیا کہ میڈیا اس سارے مسئلے کی جڑہے، میڈیا میں جان بوجھ کر ایسے واقعات کو رپورٹ کرکے خوف و ہراس کی کیفیت پھیلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بچوں کے والدین کا رویہ متشدد ہوتا جا رہا ہے، ہر اجنبی کو دیکھ کر اس کی خوب دھلائی کی جاتی ہے کل لاہور میں اپنے بچے کو ویکسین کے لئے لے جانے والے باپ کو مشتعل ہجوم نے اغوا ء کار سمجھ کر خوب دھلائی کی، اسی طرح ایک روز قبل مغلپورہ میں ایک شریف غبارے والے کو بھی مار مار کر لہولہان کر دیا گیا اور ایسی کئی خبریں روز سننے کو مل رہی ہیں۔
Kidnapping for Ransom
ان کیسز کے حوالے سے جب مختلف ذرائع سے جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ کیس روٹین کے مطابق ہوئے ہیں لیکن میڈیا اسے بہت زیادہ ہوا دے رہا ہے جس کی وج سے لوگوں میں خوف وہراس پایا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو جس پر بھی شک گذرتا ہے اس کی ایسی کی تیسی کر نا شروع ہو جاتی ہے۔ خدانخواستہ معاملات اگر یونہی رہے تو مجھے ڈر ہے کہ کل ایسے ہی کسی بے گناہ کو مشتعل لوگوں کا ہجوم کسی معصوم کی جان ہی نہ لے بیٹھے۔ اگر ایسا ہو تا ہے تو اس میں سب سے بڑا مجرم ہمارا میڈیا ہو گا۔اس حوالے سے لاہور میں موجود کرائم رپورٹرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کو اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کا ذریعہ بنانے کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔ میڈیا کے کوڈز آف اتھیکس اور اپنے ملی فرائض کی پاسداری کریں گے۔ پولیس افسران کے حمایتی یا مخالف بننے کی بجائے اس دھرتی کے فرزندہونے کا ثبوت دیں گے۔
اس وقت ٹیبل سٹوریز کرنے کی بجائے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک دفعہ ضرور جائیں جہاں رپورٹرز کی بریکنگ نیوز کے پیچھے لگنے والی دوڑ نے کتنے گھروں میں اندھیرے کر دئیے ہیں،کتنے لوگ خوف کی وجہ سے اپنے بچوں کو گھروں سے نکلنے نہیں دے رہے۔ کتنی معصوم بچیوں کی گڑیاں صندوق میں بند کر کے رکھ دی گئی ہیں۔ ایک دفعہ اندرون شہر کی تاریکی میں مایوسی پھیلاتی افواہوں پر بھی خبر بنا کر اپنے چینل کو بھیجیں ، آپ ریاست کے چوتھے ستون کے محافظ ہیں۔ جب محافظ ہی ستون کو دیمک لگ کر کھانا شروع کردیں تو عمارت کیوں کر قائم رہ سکے گی۔