ایشیا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 18 سال سے کم عمر کی 12 ملین لڑکیوں کو ازدواجی بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اگلی دہائی میں مزید 13 ملین بچوں کی شادیوں کے خطرات موجود ہیں۔
بہبود اطفال کے عالمی ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ بچوں کی شادی کی روایت کا خاتمہ معاشروں سے غربت کو رفتہ رفتہ دور کر سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ اور با اختیار لڑکیاں صحت مند نئی نسل کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا غربت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کے شکار والدین ‘چائلڈ میرج‘ پر مجبور ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا نے ایشیا بھر میں لاتعداد خاندانوں کو غربت کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب ان خاندانوں میں لڑکیوں کا بوجھ اور زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ غربت کے شکار والدین کی طرف سے لڑکیوں کو جبری شادی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس رواج کے خلاف سالوں سے جاری مہم کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت آگے بڑھنے کی بجائے ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایشیا میں انڈونیشیائی جزیرے سے لے کر بھارت، پاکستان، بنگلہ یش، ویتنام جیسے ممالک میں ‘چائلڈ میرج‘ یا بچوں کی جبری شادی کی ورایت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے تاہم بچوں کی بہبود کی مختلف تنظیمیں اور فلاحی ادارے ان معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی صحت کی سہولیات کی بہتر فراہمی کے ذریعے بچوں کی شادی کی فرسودہ روایت کے رجحان میں کافی حد تک کمی لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
‘گرلز ناٹ برائیڈز‘ نامی ایک این جی او کی ایشیا سیکشن کی سربراہ شپرا جھا کہتی ہیں،” ایشیائی معاشروں میں چائلڈ میرج کی روایت کو مٹانے کے لیے بہت سی کوششیں کی گئیں تھیں جن کے نتیجے میں ان معاشروں میں بہت بہتری آئی تھی۔ اب کورونا وائرس کے سبب ان کوششوں میں کمی آ گئی ہے کیونکہ والدین معاشی دباؤ میں آ گئے ہیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔‘‘ شپرا جھا کے بقول،”پچھلی دہائی میں جو ہم نے فوائد حاصل کیے تھے وہ کووڈ کے دور میں سب کے سب مٹی میں مل گئے۔‘‘
دنیا کے بہت سے دیگر روایتی معاشروں کی طرح ایشائی معاشروں میں بھی بحرانوں کے دور کے علاوہ بھی ‘چائلڈ میرج‘ رائج ہے کیونکہ ان معاشروں میں غربت، تعلیم کا فقدان اور عدم تحفظ والدین کو اپنے کم سن بچوں کی شادیوں پر مجبور کر دیتا ہے۔ لڑکیاں خاص طور سے اس رواج کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 18 سال سے کم عمر کی 12 ملین لڑکیوں کو ازدواجی بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ جب تک کورونا وائرس کے معاشی اور معاشرتی اثرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی کارروائیاں نہیں کی جاتیں تب تک اگلی دہائی میں مزید 13 ملین بچوں کی شادیوں کو نہیں روکا جا سکتا۔
کورونا کے پھیلاؤ کے بعد سے اب تک بچوں کی جبری شادیوں سے کئی ہزار خاندان متاثر ہو چُکے ہیں۔ گرچہ اس بارے میں حتمی ڈیٹا ابھی اکٹھا نہیں کیا جا سکا ہے۔
بھارت میں ‘ون اسٹپ ٹو اسٹاپ چائلڈ میرج‘ مہم اس سلسلے میں بہت فعال ہے۔ اس کی روح رواں رولی سنگھ کا کہنا ہے،” لاک ڈاؤن کے عرصے کے دوران بچوں کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں بے روزگاری، ملازمتوں کی کمی جیسی مشکلات سے دوچار گھرانوں میں والدین اپنی جوان بیٹیوں کو لے کر بیٹھے رہنے سے بہتر اس امر کو سمجھتے ہیں کہ ان کی کم سنی میں ہی شادیاں کر دی جائیں۔‘‘
پندرہ سالہ مسکان کا کہنا ہے کہ اسے اپنے ایک 21 سالہ پڑوسی سے شادی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کے والدین بھارت کے شہر واراناسی میں اسٹریٹ کلینر یعنی سڑکیں صاف کرنے کا کام کرتے ہیں۔ مسکان کے علاوہ ان کے چھ اور بچے ہیں جن کا پیٹ پالنا آسان کام نہیں ہے۔ ٹین ایج مسکان اپنے گھر کے حالات کے پیش نظر اپنے والدین کے اس فیصلے پر چار و ناچار راضی ہو ہی گئی۔ نمدیدہ مسکان کا کہنا تھا،”میرے والدین غریب ہیں وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ میں نے بہت جھگڑا کیا مگر آخر کار مجھے ہارنا پڑا۔‘‘
بہبود اطفال کی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن‘ نے خبردار کیا ہے کہ لڑکیوں کے خلاف تشدد اور جبری شادیوں کے خطرات، خاص طور سے نابالغوں میں، وائرس سے کہیں بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔‘‘
اُدھر یونیسیف نے انڈونیشیا میں نابالغوں کی شادی سے متعلق ایک اہم مسئلے پر زور دیا ہے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق چائلڈ میرج کی شرح کے اعتبار سے انڈونیشیا کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی جبری شادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا میں گزشتہ برس لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے شادی کی قانونی عمر 16 سال سے بڑھا کر 19 سال کر دی گئی تھی۔ لیکن اس معاشرے کے قوانین میں بہت سے جھول ہیں۔ مثلاً مقامی مذہبی عدالتیں کم عمری کی شادی کی اجازت دے سکتی ہیں۔