تحریر: عاصمہ عزیز بچے والدین کی زندگی کا محور ہوتے ہیں جن کی کھلکھلاہٹ گھر کے آنگن کو مہکاتی ہے۔ماں باپ کی زندگی ان کے بچوں کے گرد ہی گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ان کا ہنسنا’رونا اور کھلکھلانا والدین کو زندگی کا احساس دلاتا ہے۔اس لئے وہ اپنے بچوں کی صحت اور نشوونما پر خاص توجہ دیتے ہیں۔لیکن اکثر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بچوں کی جسمانی صحت اور نشوونما پر توجہ تو دی جاتی ہے لیکن ذہنی اور دماغی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے والدین اور اردگرد کے لوگوں کی طرف سے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔شاید ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات نقش ہوتی ہے کہ ڈپریشن اور ذہنی دبائو کا شکار صرف نوجوان اور بڑی عمر کے افراد ہی ہوسکتے ہیں۔لیکن یہ تاثر درست نہیں ہے کیونکہ ایک مطالعے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے ذہنی دبائو چھوٹے بچوں کی دماغی نشوونما کو متاثر کرتاہے۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت چھوٹے بچوں میں ڈپریشن اور ذہنی دبائو ان کے ذہن کو بدل کر ان میں ”گرے میٹر”کو متاثر کرسکتا ہے۔گرے میٹر ان ٹشوز کو کہتے ہیںجو دماغی خلیات کو جوڑ کے ان کے درمیان ایسے سگنل کا تبادلہ ممکن بناتے ہیںجو دیکھنے’سننے’ فیصلہ سازی اور جذبات واحساسات جیسے اہم امور کو کنٹرول کرتے ہیں۔گرے میٹر کے متاثرہونے سے بچوں کے اہم افعال متاثرہوسکتے ہیں۔
The human brain
جس طرح انسان بیرونی موسم کی تبد یلی کے باعث جسمانی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے اسی طرح انسان کا دماغ بھی عمر کی قید کے بغیر بیرونی رویوں اور عوامل سے متاثر ہوتاہے۔جس کے نتیجے میں ڈپریشن ‘ذہنی تنائو اور دیگر دماغی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بچے بڑوں کی نسبت تلخ رویوں اور عوامل سے جلد متاثر ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں بہت سی منفی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔اگر ہم اپنے اردگرد میں نظر دوڑائیں تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین کا اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوںکو پیار اور توجہ نہ دینا’بچوں کے درمیان مقابلے اور موازنے کی فضا قائم کرنا’لڑائی جھگڑااور غربت وغیرہ بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے دماغ میں واضح تبدیلیاں دیکھی گئیں ہیں بلکہ انکی تعلیمی کارگردگی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کے لئے جہاں انھیں صحیح اور غلط میں فرق بتانا ضروری ہے وہیں حد سے زیادہ روک ٹوک بچوں کو ذہنی دبائو کا شکار بھی کرسکتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو غیر ضروری روک ٹوک کی بجائے ان کے اور اپنے درمیان دوستانہ فضا قائم کریں۔اس سے نہ صرف بچوں کو والدین کی باتیں با آسانی سمجھ میں آسکیں گیں بلکہ وہ اپنی ہر پریشانی اور الجھن بلا جھجھک کسی دوسرے سے شیئر کرنے کی بجائے اپنے والدین سے کرسکیں گے ۔بچوں کی ذہنی نشوونما کے لئے بھی ضروری ہے کہ گھر کی فضا کوتنائو اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھتے ہوئے دوستانہ ماحول قائم کیا جائے کیونکہ اگر گھر میں ان کو پراعتماداور خوف سے پاک ماحول نصیب ہوگا توہی وہ معاشرے کی ایک پراعتماد شخصیت بن کر ابھریں گے۔