ٹی وی کی افادیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ مگر اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کے دور کا ٹی وی رحمت سے کہیں زیادہ زحمت دے رہا ہے۔مفکر اسلام بھی ٹی وی کو ایک واہیات شے سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ نہ صرف اسلامی مذہبی حلقوں بلکہ دیگر مذاہب کے مفکروں نے بھی ٹی وی کے مضر اثرات سے دنیا کو اس کی ایجاد کے ابتدائی مراحل میں ہی آگاہ کر دیا تھا اور یہ بات بھی بتا دی تھی کہ ٹی وی سے بجائے فائدے کے نقصانات زیادہ ہونگے۔ بلکہ کچھ مفکرین نے تو ٹی وی کو ٹی بی کا نعم البدل بتایاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے تقریبا نو ّے فی صد پروگرام توایسے ہیں جن سے بچوں کی ذہنیت بجائے تعمیر کے تخریب کی طرف مرکوز ہوتی ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کسی بھی معاشرے کے لئے مضر ثابت ہوا ہے۔ اس کے متعدد چینلوں پر فحش فلمی پروگرام، غلیظ قسم کی فلمیں ،بے شرم فلمی گانے ،بدکاری و واہیات کہانیوں سے مزین سیریلز اور بے تکے اشتہارات دھڑا دھڑ دکھائے جارہے ہیں۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بچے تو بچے بلکہ بڑی عمر کے لوگوں کے ذہنوں کو بھی یہ پروگرام آلودہ کررہے ہیں۔اس پر بھی ماتم کا مقام یہ ہے کہ اکثرپروگرامز بڑوں اور بچوں کی اخلاقیات کو کھوکھلا کر رہے ہیں ،پیمرا کو چاہیے کہ کیبل پر دکھائے جانے والے ایسے غیرملکی چینلزپرپابندی لگائے جن سے معصوم بچوں کے ذہنوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ان میں تمام وہ پروگرام شامل ہیں جن میں غیرملکی ڈرامہ سیریلز اور کچھ تو ہمارے اپنے پاکستانی ڈرامہ سیریلزشامل ہیں ،جن میں ہمارے کلچرکا جنازہ نکالا جارہا ہے
پیمرا کو فوری طور ان چینلز پر بھی پابندی عائدکردینی چاہئے جن پر صبح کے پروگرام میں اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا ہے،اور کوئی بھی فیملی گھرکے تمام افراد کے ساتھ بیٹھ کر ایسے پروگرامز نہیں دیکھ سکتی۔ کیونکہ فیشن کے نام پر دکھائی جانے والی عریانی بچوں کے آداب و اخلاق پربرا اثر ڈال رہی ہے۔ٹی وی عوام کودنیا بھرسے باخبررکھنے اور پاکستانی کلچرسے روشناس کروانے کی بجائے ان کے دماغوں کے لئے ایک زہریلی تفریح اوران کا مستقبل تاریک کرنے کا ذریعہ بن گیاہے۔جو چینل بچوں کو دکھائے جا رہے ہیں ان میں عموماً ننگے پن کا مظاہرہ، ازدواجی چپقلشیں، والدین و اولاد میں اختلافات،بھائی بہنوں میں نا اتفاقی، دوستانہ تعلقات میں نہ چاقی اور نہ جانے کیا کیا واہیات چیزیں ہیں جن کو ہم یہاں تحریر میں نہیں لا سکتے۔
آئے دن والدین اس بات کی شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ٹی وی کے اوپر بے شمار اشتہار دیکھ کر بچوں میں وہی چیزیں خریدنے کی خواہشات پیدا ہوتی ہیں جن کو سبھی والدین فراہم نہیں کرسکتے۔ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب پاکستان میں صرف دو چینل ہی دکھائے جاتے تھے جو کہ کم از کم اس نظریئے سے بہتر ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے 24گھنٹے چلنے والے چینلوں سے متاثر ہوکر چور اور قاتل بنیں۔والدین ہی نہیں بلکہ اسکولوں سے اساتذہ حضرات کی بھی شکایات آرہی ہیں کہ بچوں کے کچے ذہنوں پر ان نقصان دہ ٹی وی چینلوں کا کتنا بھاری اثر ہو رہا ہے۔
Society
وہ بچے نہ صرف اسلامیات بلکہ انسانی تہذیب اور تمام معاشرے سے کٹتے جا رہے ہیں۔اسکولوں میں بچوں کی تعلیم سے بددلی اوراپنے فرائض سے سبکدوشی جیسے حالات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ استاد جو کام دیتے ہیں بچے اس کام کو کرتے نہیں اور جماعتوں کے اندر ان فحش ٹی وی پروگراموں کے بارے میں گفت و شنید کرتے نظر آتے ہیں۔حالانکہ اساتذہ کا طبقہ اس بات سے بہت فکر مند ہے مگر حل دور دور تک نظر نہیں آتا اور ایسا دیکھنے میں آیاہے۔ کہ وہ لوگ پریشان ہو رہے ہیں مگر کھل کر اپنی پریشانی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے۔ اس سے سب سے زیادہ نقصان اردو میڈیم کے ان طلبا کو ہو رہا ہے جن کے والدین ان کے لئے مہنگی ٹیوشن نہیں رکھ پاتے۔ امیر گھرانوں میں تو والدین اس بات کی کمی اس صورت میں پوری کردیتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ہر مضمون میں نہ صرف ٹیوشن رکھوادیتے ہیں بلکہ تمام سہولیات بھی فراہم کرادیتے ہیں۔لہذا یہاں بھی برق گرتی ہے تو اردو میڈیم والوں پر!
ہمارے معاشرے کی بچیوں اورخواتین پر جو اس کے سنگین اثرات پڑ رہے ہیں اس کے بارے میں ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ گھروں میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچیاں اور خواتین نہ صرف والدین کی نافرمانی کر رہی ہیں بلکہ بہت سے اہم معاملات میں اپنی من مانی بھی کر رہی ہیں۔ کیبل پر اس قسم کے سیریل جن کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے، بڑی بے شرمی کے ساتھ دکھائے جارہے ہیں جن میں عورت کو نسوانی حقوق کے نام پر شوہر کے ساتھ زبان درازی و ساس سسر کے ساتھ نا فرمانی جیسی باتیں کھلے عام سکھائی جارہی ہیں۔اسی قسم کی تربیت یہ عورتیں اپنے بچوں کی بھی کرتی ہیں جس سے خاندان بجائے یک جہتی کی مثال بننے کے، منتشر ہوتے جارہے ہیں۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ہماری مائیں،بیٹیاں، بیویاں اور بہنیں آج کل بڑے شوق اور پابندی کے ساتھ یہ پروگرام دیکھ رہی ہیں۔ اسکولوں میں پڑھنے والی بچیاں محض چوتھی پانچویں جماعت سے ہی ٹی وی کے اشتہاروں کو دیکھ کر نہ صرف شیمپو سے اپنے بال دھونا چاہتی ہیں بلکہ جسم کو عریاں کرنے والے کپڑوںمیں خود کو ملبوس کرنا چاہتی ہیں اور ہر وقت آئینے کے آگے کھڑی یا تو لپ اسٹک لگاتی رہتی ہیں یا خود کو نہارتی رہتی ہیں۔چھوٹے بچے بھی آئس کریم، چاکلیٹ،کھلونوں وغیرہ کے اشتہارات کو دیکھ کر یہی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ بھی ایسے ہی محل نما گھروں میں رہیں اور ویسی ہی آسائشیں انہیں حاصل ہوں جیسی کہ وہ ٹی وی میں دیکھتے ہیں۔ مہنگے کھلونے، فرنیچر وخوبصورتی سے آسائش کمرے ان کے بھی ہوں۔مگر جب حقیقت سے وہ آشنا ہوتے ہیں تو ان میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔ٹی وی کے ان پروگراموں کا غلط اثر ماں باپ پر بھی ہو رہا ہے کہ وہ بھی ان سے متاثر ہوکر اشتہار والی چیزیں نہ صرف خود خرید رہے ہیں بلکہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بھی لے کردے رہے ہیں۔
یہیں پر ہمیں نظر آتا ہے والدین کا دیوالیا پن اور اشتہارات دینے اور بنانے والی کمپنیوں کی کامیابی۔ اس بات کا سبھی کو علم ہے کہ عام طور سے اشتہار حقیقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور ان کے جال میں پھنس کر وہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ان کمپنیوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ایک کروڑ کا اشتہار دیتے ہیں تو فائدہ انہیں سینکڑوں کروڑ کا ہو تا ہے۔ان حالات کی روشنی میں اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف عالم دین، مفّکر،ماہرتعلیم ، دانشور،کالم نگار سر جوڑ کر بیٹھیں بلکہ سیاست دان اور حکومت بھی کچھ مثبت اقدام اس سلسلے میں اٹھائے۔ ٹی وی کے ان مسائل کی روز بروز بڑھتی سنگینی کو دیکھ کر اب یہ محسوس ہوتا ہے
ہر گھر اور ہر درسگاہ میں ایسی بری چیزوں کے خلاف ایک مہم چلنی چاہیے اور بچوں کو پیار یا سختی کے ساتھ اس بات کو سمجھایا جانا چاہیے کہ ٹی وی سے اتنا ہی ناطہ رکھا جائے کہ جتنا ضروری ہے اور مفید ہے۔اس سلسلے میں ان ٹی وی چینل چلانے والے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے جو فحش قسم کے پروگرام کیبل کے ذریعے گھر گھر تک پہنچارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
M.A.TABASSUM
تحریر:ایم اے تبسم (لاہور) email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102