تحریر : نجم الثاقب آج 60 سال کے بعد بھی پاکستان میں عورتیں اور بچے ہمارے معاشرے میں مضبوط مقام اور وہ درجہ نہ پا سکے جس کے وہ مستحق ہیں ملک کے اندرپندرہ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 42 فیصد ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہر دس بچے روزانہ کی بنیاد پر استحصال کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ہر چار میں سے ایک بچی جبکہ ہر چھ میں سے ایک بچہ اَٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 2016سال میں سو معصوم فرشتہ صف بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد موت کی نیند سلا دیا گیا ۔ 2017 کی رپورٹ کے مطابق ایسے واقعات میں گذشتہ سال کی نسبت دس فیصد اضافہ ہوا ۔ معاشرتی اور سماجی شرم و حیا کے باعث جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کے کوائف وہ والدین اور سرپرست سامنے نہیں لاتے، جس سے مجرمان کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتی اور وہ قانون کی گرفتار میں نہیں آ پاتے اور وہ گناہ کبیرہ کا فعل اسی طرح جاری رکھتے ہیں ۔جنسی زیادتی کے شکار یہ بچے وقت گزرنے کے ساتھ نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے اِن کی شخصیت میں جارحانہ عادات پیداہونا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ذہنی تنائوکا شکار ہو کر بہت سی سماجی برائیوں ، بے راہ روی ، منشیات کی دنیا میں اپنے قدم بڑھاتے ہیں اور بعض اوقات انتہائی مایوسی کے عالم میں خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔
اب بین الاقوامی سطح پر بچوں سے جنسی زیادتی کا مسئلہ سنگین حدکراس کرتا جا رہا ہے ۔دنیا کے دیگر معاشرے کی طرح ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک میں معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ سماجی مسائل بھی بڑھتےجا رہے ہیں۔ پوری دنیا کے اندر بچوں کی ذہینی اور جسمانی استحصال کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی وجوہات میں غریب، مفلسی، بےروزگاری، جہالت اور ضروریات زندگی کا پورا جیسے مسائل شامل ہیںا ۔ ایسے کیسز میں بچوں کی سادگی معصومیت، شفاعیت کو بڑے منظم اور گھناونے انداز سے والدین، سرپرست، افراد و گروہ اپنے فوائد کے لئے استعمال کرپائے گئے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرہ اور سوسائٹی نے بچوں کے استحصال کے عمل کونا پسندیدہ، مکروہ قرار دیا ہے جب کہ اسلام میں اس کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔
استحصال کو تین کیٹارگری میں تقسیم کیا ہے ، پہلا جذباتی (تصوراتی) ، دوسرا جسمانی اور تیسرا جنسی ۔یہ تینوں ہی وہ مراحل ہیں جو بچوں کی سوچ ، فکر ، تخلیق اور شخصیت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ جذباتیاستحصال کی عام وجوہات بچوں کو پیارو خلوص نہ ملنا ، والدین کا بچوں کی خواہشیات و ضروریات کو پورا نہ کرپانا ، بچوں کے جذبات اور احساسات کی تسکین نہ ہو پانا، بچوں کا احساسِ کمتری کی کیفیت میں مبتلا ہو جانا ۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن کے زخم ساری عمر پچھتاوا بن کر بچوں کی سوچ اور ان کی روح پرحاوی رہتے ہیں۔
جسمانی استحصال ایسے زخم جو بچوں کو جسسمانی تکلیف کے ذریعے سے پہنچتے ہیں جب بھی کوئی بھی تکلیف بچے کو پہنچتی ہے اس کااثر اس کے ذہین پر پڑتا ہے جس سے ذہینی سوچ ، فکر اور تخلیق روک جاتی ہے جس سےبچوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ۔ ضروریات زندگی کو پورا کرنے ، پیسوں کے لالچ میں، بھوک اور پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لیےبچوں کو مزدوری کرنے پر مجبور کرنا، بچوں کو اغوا کرنے کے بعد معذور بنا کر ان سے بھیک منگوانا یہ اقدامات جو وہ مکروہ دھندے ہیں جس کی مثال ہمارے مشاہدے میں اکثر آتی ہیں۔
جنسی استحصال سب سے زیادہ خطرناک و موذی عمل ہے کہ اس کےا ثرات سوچ و روح کے ساتھ ا نسانی فطرت پر ساری زندگی رہتے ہیں۔ زمانے کی ستم گری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر بچوں کا جنسی استحصال ایک کاروبار بنتا جا رہا ہے ۔ آج دنیا میں تیسری بڑی انڈسٹری چائلڈ سیکس ہے جس ہزاروں ڈالر کما رہی ہے جس میں بچوں کو بے دردی ، بے حیائی اور مجبوری کے ساتھ سے چائلڈ ایب یوزسیکس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ بچوں سے زیادتی کی روایت یورپ سے منتقل ہو کر یہاں بھی پھیلتی جا رہی ہے جس کاقلع قمع کے لئے سب کو یک جان ہو کر منظم انداز میں سخت اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ عام طور پر بچوں سے زیادتی کیسز میں ایسے افراد ان بیہمانہ فعل کے مرتکب ہوتے ہیں جو زندگی میں خود اس زیادتی کا شکار ہوئے ہوں جو اپنے جنسی ہوس کا انتقام لینے کے یہ قدم اٹھاتے ہیں ۔ عموما ً زیادتی کرنے والے زیادہ تر افراد اجنبی اور انجان پائے گئے ہیں لیکن کیسز ایسے بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں خاندان اور فیملی کے اپنے قریبی رشتہ دار اور عزیز اوقارب ایسے شیطان صفت حرکات میں ملوث پائے گئے جن کو خاندان ، برادری اور والدین بہت زیادہ اعتماد اور یقین حاصل ہوتا ہے۔
خاندان ، براداری ، والدین اور سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی سوسائٹی پر گہری نظر رکھیں ان کے دوست احباب، کھیل کود ، میل ملاپ ، اٹھنا بیٹھنا اور دیگر محفلوں پر نظر رکھیں ۔ تمام والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ پیار و خلوص کا رویہ رکھیں تاکہ بچے اپنی مشکلات تکالیف بیان کرتے ہوئے ڈر اور خوف نہ محسوس کریں۔ بچوں سے جنسی استحصال کی تعلیم و نالج کے موضوع پر گفتگو کریں۔ قرآن مجید والحدیث کی کتب میں اللہ رب العزت نے بنی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تمام بنی نوع انسانوں کے رشتوں کے مقام کو واضح کردیا ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم بھی اپنے بچوں کو ہر قسم کی سماجی مسائل برائیوں اور اس کے حل پر تمام پہلووں سے بچنے کی ترغیب دیں۔ تمام بچوں کے لئے ذاتی حفاظت کے موضوع پر لیکچرز ( مثال کے طور آگ ، بجلی کا استعمال، اثرات اور نقصانات ، سڑک پار کرنے کا طریقہ ، معاشرتی آداب ، کسی بھی جسمانی استحصال اور زیادتی سے بچنے کے قدامات ) پر سیمپل اور سادے انداز میں گفتگو شنوید کریں۔ کوئی بھی شخص چاہے وہ جاننے والا ہو یا اجنبی، اگر جسم کو چھونے کی کوشش کریں تو وہاں سے بھاگیں ، زور زور سے شور مچائیں اوروہاں سے بھاگنے کی کوشش کریں۔
اگر کو ئی بے ہود، بےحیائی کی بات یا گفتگو کریں، کوئی تصوریر یا وڈیوز دکھائیں تو فورا وہاں سے اٹھا کر چلیں جائیں۔ ایسی گفتگو اور تصویریں اور ڈیوزکو مت سنیں دیکھیں اور اپنے والدین خاندان کے بڑے افراد کو ضرور بتائیں۔ اگر اُس وقت آپ کے والدین موجود نہ ہوں تو اردگرد کے بڑے بزرگ افراد اور شخصیات کو بتائیں ۔سکولز اور مدارس میں استاتذہ اکرام کو بھی چاہیے کہ وہ سماجی مسائل کے حل کے لئے ایسے پروگرام اور نشستوں کا اہتمام کریں جس سے بچوں کی تعیم کے ساتھ سماجی تربیت بھی عمل میں لائی جسکے۔ ہم ہمہ وقت اپنے بچوں کو اپنے سامنے نہیں رکھ سکتے نہ ہی ان کی انفرادی طور پر حفاظت کے لئے سیکورٹی کابندوبست کر سکتے ہیں ۔ ہر محب الوطن شہری کی ذمہ داری ہےکہ وہ ہر بچہ کو اپنا بچے سمجھ کر حسن سلوک ، اداب اور شفقت سے برتائو کریں جس کے بعد ہی ہم سب اجتماعی طور مل کر معاشرے میں ایسی سماجی برائیوں کو باسانی ختم کر سکتے ہیں۔