پاکستان کا آئین تمام تر بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور مقننہ، عدلیہ اور افواج آئین اور اسلامی روایات کی مکمل امین ہیں۔ پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے اس میں چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے شامل ہیں پاکستان میں مختلف لسانی اور نسلی قومیتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے جیسا کہ اسکی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے اور اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیاء کی دوسری ایٹمی طاقت ، جس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔
20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا چھٹا بڑا آبادی والا ملک ہے۔ ملکی آبادی میں69 فیصد افراد کی عمریں29 برس جبکہ 53 فیصد لوگ 19 برس سے بھی کم عمر ہیں۔ یوں پاکستانی مجموعی طور پر ایک جوان قوم ہیں۔ آبادی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کے بارے میں نہ صرف سوچے بلکہ عملی اقدامات بھی کرے۔ یوں بچوں کے حقوق پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان2010-11 کے مطابق ملکی آبادی میں شرح پیدائش3.5 فیصد جبکہ گروتھ ریٹ 2.05 فیصد ہے یعنی 1.45 فیصد بچے جوانی کی حدود کو چھو نہیں پاتے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، دوسری طرف وطن عزیز کے پانچ کروڑ بچے سکول جانے کی عمر میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، جن کی اکثریت سے جبری مشقت لی جاتی ہے، جن کوجنسی تشدد، کم اجرت پر مزدوری جیسے استحصال کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی صحت ،تعلیم، خوراک، انصاف، حفاظت حکومتی ذمہ داری ہے۔ ”پاکستان میں بچوں کے مسائل ” نامی رپورٹ نے بچوں کو درپیش مسائل اور ان کو حقوق و تحفظ کی فراہمی پر بڑے بڑے سوالات کھڑے کر دیئے۔ ملک بھر میں چائلڈ لیبر، بانڈڈ لیبر، تعلیم کے مسائل ، کم عمری کی شادی اور جنسی زیادتیوں جیسے مسائل نے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
یوں تو پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے اور ملک کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں دنیا بھر میں انقلاب برپا کرنے کے نعرے بھی بلند کرتی ہیں۔ لیکن حال ہی میںپاکستان میں بچوں کو ویکسین پلانے والی ایک برطانوی تنظیم سیو دی چائلڈ ”SAVE THE CHILD” کی رپورٹ کے مطابق ملک میں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندراندر مرنے والے بچوں کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ اس شعبہ میں پاکستان اپنی تمام تر طبی سہولتوں اور خوشحالی کے باوجود افغانستان ، نائیجیریا ، سیرالیون ، صومالیہ اور گنی بسائو سے بھی پیچھے ہے۔ اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 40.7 چوبیس گھنٹے کے اندر جان دے دیتے ہیں۔ یہ شرح بچوں کی ہلاکت کی بلند سطح والے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں 10 فی ہزار بچہ زیادہ ہے۔ اس فہرست میں جن دوسرے ملکوں کو شامل کیا گیا ہے۔
ان کی قومی پیداوار ، سماجی حالات ، سیاسی ڈھانچہ یا صحت کی سہولتیں پاکستان سے کئی گنا ابتر ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا اس فہرست میں سب سے اوپر ہونا شرمناک اور افسوسناک حقیقت ہے۔ 2012ء میں دنیا بھر میں 10 لاکھ بچے پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر جاں بحق ہو گئے ۔ جبکہ اسی برس 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے 66 لاکھ بچے ہلاک ہوئے ۔ یہ تعداد 1990ء کے مقابلے میں نصف ہو چکی ہے۔ اس وقت ہر سال مرنے والے کم عمر بچوں کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہر سال مزید 20 لاکھ بچوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
بچوں کی کثیر تعداد میں ہلاکت کو جدید دنیا کے لئے شرمناک قرار دیتے ہوئے ایک زبردست چیلنج بتایا گیا ہے۔ اس وقت دنیا میں 5 سال سے کم عمر کے 18 ہزار بچے روزانہ مر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے نوزائیدہ بچوں کے مرنے کے عوارض کو جاننا اور حالات میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس طرح بچوں کی زندگی کو تحفظ دینے اور بہتر طبی سہولتیں فراہم ہو سکیں گی۔
گزشتہ 25 برس میں بچوں کی ہلاکت میں کمی کے لئے کئی اقدامات کئے گئے ۔ بچوں میں ویکسی نیشن میں اضافہ ہوا ، خاندانی منصوبہ بندی کو بہتر بنایا گیا ، بچوں کو بہتر خوراک فراہم کی گئی ہے اور علاج کی سہولتیں عام ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں عمومی اقتصادی بہتری کی وجہ سے بھی مختلف ملکوں میں بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتوں کے علاوہ مقامی سطح پر اور خاندانوں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ اس لئے 25 برس میں بچوں کی ہلاکت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی۔ بھارت میں پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر مرنے والے بچوں کی تعداد 6 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تاہم گزشتہ 25 برس میں اس حوالے سے انڈیا میں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔
پاکستان کی حکومت ، سیاسی و سماجی تنظیمیں عام طور پر یہ شکوہ کرتی ہیں کہ دنیا پاکستان کے بارے میں منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ تاہم جب حقائق کی بنیاد پر کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے تو کسی بھی سطح پر اس پر ردعمل ظاہر کر کے بہتری کے لئے اقدامات کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ تعلیم ، معاشی حالت اور سماجی صحت کی سہولتوں کے اعتبار سے اگرچہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل نہیں ہے لیکن اس کا شمار بدترین ملکوں میں بھی نہیں ہوتا۔ صدقات اور زکوة کی مد میں ہر سال کھربوں روپے ملک کی مذہبی تنظیموں اور مدارس کو دئیے جاتے ہیں جن کا کبھی کوئی حساب منظر عام پر نہیں آیا۔ ایک ایسے معاشرے میں نوزائیدہ بچوں کی صحت کے حوالے سے اس قدر لاپرواہی نہ صرف سرکاری کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ملک کی سماجی و دینی تنظیمیں بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کو کنٹرول کرنے کے لئے لوگوں میں شعور کو بہتر بنانے کے علاوہ زچہ و بچہ کو چند بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتحال عام طور پر لاپرواہی اور مناسب توجہ نہ دینے یا بروقت طبی سہولتیں میسر نہ آنے سے پیدا ہوتی ہے۔حکومت کے علاوہ ملک میں سرگرم سماجی تنظیموں کو بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وسیع پیمانہ پر بچوں کی نگہداشت کے لئے سہولتیں بہتر بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Children Workers
پاکستان میں بچوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ، ان کی آواز سنی ہے جاتی نہ ان کا الگ بجٹ ہے۔آج ملک میں کروڑوں بچے گلی محلوں میں بھیک مانگتے ‘ہوٹلوں ‘ورکشاپس اور گھروں میں انتہائی کم اجرت پر کام کر رہے ہیں پاکستان میں اس وقت 9 کروڑ بچے ہیں جن میں سے 40 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔بچوں کے حقوق کے متعلق شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاق اور صوبوں میں تعاون اور مانیٹرنگ کے نظام کوموثربنانے کی بھی ضرورت ہے۔
20 نومبر 1989ء کو اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے عالمی معاہد ہ کی منظوری دی۔ اس معاہدے پر پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک نے دستخط کئے ۔ جو بچو ں کو سماجی ، معاشی اور ثقافتی حقوق فراہم کرتا ہے۔پا کستان کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق 12 نو مبر 1990 ء میں کی گئی جس کے مطا بق اب حکومت اس بات کو یقینی بنا نے کی ذمہ دار ہے کہ ہر بچے کو چائلڈ رائٹس کمیشن کے تحت حقوق ملیں۔ اس عا لمی معاہدے کے مطا بق بچو ں کے حقو ق یہ ہیں۔ اٹھا رہ سال سے کم عمر کے تمام لڑ کوں اور لڑکیوں کو بچہ مانا جائے گا، بچوں کے حقوق کیلئے معاہدے میں ”غیر امتیازی سلوک ، بچے کا بہتر ین مفاد، حقوق کا نفاذ ، بچو ں کی صلا حیتیں ، زندگی، پرورش ، نا م، شہریت ، تحفظ و شنا خت ، والدین سے علیحدگی ،خاندانی رشتے، اغو ا ، بچو ں کی رائے ،آزادی اظہا ر ، سو چ فکر ی مذہب ، تنظیم سا زی کی آزا دی ، تنہائی یا خلوت کا تحفظ ، منا سب معلوما ت ، والد ین کی ذمہ داری ، تشد دسے تحفظ ، بچے کی حفاظت ، بچے کو گود لینا، مہاجر/ پناہ گزین بچے، معذوربچے، صحت اور سہولتیں، نگہداشت کے مراکز، معاشرتی تحفظ، معیار زندگی، تعلیم، بہتر تعلیمی نظام، خصوصی / اقلیتی بچے، بچوں سے مشقت، ممنوعہ ادویات سے تحفظ، جنسی تشدد، بچوں کی خریدوفروخت، استحصالی عوامل، جسمانی تشدد،مسلح تصادم، بحالی حقوق اطفال، عدالتی انصاف کا حصول،اعلیٰ معیارکے لیے جدوجہد ” وغیرہ شامل ہیں۔ بچوںکے حوالے سے صحت ، تعلیم ، پولیس اور دیگر وفاقی اداروں سے متعلقہ شکایات چلڈرن کمپلینٹ آفس میں بچے ازخو د، والد ین یا کو ئی بھی شہری شکایات در ج کروا سکتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق2011ء میں بچو ں کے حالا ت کا مطا لعہ شرو ع کیا گیا اور 2012ء میں اس کا آغا ز اور تکمیل ہوئی۔ یہ ریسر چ وفاقی دفتر برائے شکایات اطفال (موجودہ ادارہ قو می کمشنر برائے اطفال )، اور صوبائی چلڈرن کمپلینٹ آفس نے شر وع کی اور اس میں یونیسیف کا تعاون شامل رہا ہے۔ یہ ریسرچ پانچ شعبو ں ، صحت، تعلیم ، انصا ف برائے اطفال ، چائلڈلیبر اور بچو ں کے لئے نظا م میں بہتر ی لانے کے لئے سفارشا ت وضع کر تی ہے۔ مطالعے میں بنیادی اور ثانوی دونوں اقسام کی معلوما ت شامل ہیں جو کہ ماہیتی اور مقداری اورریسر چر کی تجاویزکا ایک مکمل تجزیہ ہے ۔اس ریسر چ کا مقصد ملک میں حقو ق اطفا ل کے حوالے سے ملک میں موجو د خلا کی نشاندہی کر نا، ان سے نمٹنے کے لئے پالیسی تجاویزواضح کرنا اور پاکستان میں حقو ق اطفال کو مستحکم کرنا۔ یہ مطالعہ تحفظ حقو ق اطفا ل کے حلقہ اثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔کیو ں کہ پاکستان میں بچو ں کی حیثیت پر حکو مت کی جانب سے توثیق شدہ پہلا مو ضو عی مطالعہ جس میں وفاتی سطح ، صوبو ں اور خا ص حیثیت کے حا مل علاقہ جات کا مکمل احا طہ کیا گیا ہے اور بہبو د اطفال پر پالیسی میکر ز کی پیش قد می کے لئے ایک خا کہ وضع کیا گیا ہے۔
شکایات اطفا ل کے دفاتر کا بنیاد ی مقصد ”پاکستان میںبچو ں کے محتسب کا نظا م” پاکستا ن میںبچو ںکے محتسب کا نظام ‘میں پیشقد می کے لئے وفاقی چلڈرن کمپلینٹ آفس ( مو جودہ ادارہ قومی کمشنربرائے اطفال)نے یو نیسیف کے تعاون کے ساتھ پاکستا ن میں بچو ں کیلئے محتسب کے نظا م اور چلڈرن کمپلینٹ آفس کی پیش قدمی کے لئے راستہ کا تعین کر نے کے لئے ایک مشاور ت کا آغاز کیااور ناروے کے سابقہ محتسب برائے اطفال کی خدمات لی گئیں۔7 مئی 2013ء کو ایک میٹنگ میں وفاقی و صوبائی محتسب نے کنسلٹنسی رپورٹ کی سفارشات کی مکمل تو ثیق کی۔ وفاقی محتسب نے وفاقی چلڈرن کمپلینٹ آفس (موجو دہ ادارہ قومی کمشنر برائے اطفال ) کو عملہ اور بجٹ سے متعلق مدد فراہم کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا۔ نیشنل چائلڈ کمیشن بچو ں شکایات اور تحفظ حقوق اطفال پر انوسٹی گیشن آفیسرزکے کا م کا تعین اور بچوں کی شکایات اور تحفظ حقو ق اطفال پر ان کے کا م میں بہتر ی کے لئے انوسٹی گیشن آفیسر زسے ملاقات کر چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں یہ صر ف حکومتی سطح کا معاملہ نہیں بلکہ آئندہ نسل کی بہتری ہم سب کا فرض ہے اور اس کیلئے این جی اوز کو بھی آگے آنا ہو گا۔ سیاستدانوں اور علماء کرام سمیت تمام مکاتب فکر کوکو شش کرنا ہو گی۔
Ejaz Ahmed Qureshi
تحریر: اعجاز احمد قریشی، چائلڈ کمشنر پاکستان وایڈوائزر وفاقی محتسب