بچوں کے حقوق کا عالمی دن

Street Child

Street Child

تحریر : ایم ابوبکر بلوچ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے گھر بچوں کا عالمی دن ورلڈ سٹریٹ چلڈرن ڈے 12اپریل کو منا یا جائے گا اس دن کے منانے کا مقصد بغیر گھروں کے گلیوں اور فٹ پاتھوں پرزندگی گزارنے والے بچوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ہے اس دن کے حوالے سے پاکستان بھر میں سماجی تنظیموں اور بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم مختلف این جی اوز کے زیر اہتمام سیمینارز ،واکس،بحث مباحثے اور مختلف سرگرمیوں کاانعقاد کیا جائے گاجس میں مقررین بے گھر بچوں کے تحفظ اور حقوق کے متعلق آگاہی دیں گے۔

گزشتہ ادوار میں اسٹریٹ چلڈرن کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی پچھلی حکومتوں نے ان بچوں کے حقوق کیلئے کوئی عملی اقدامات کئے۔12اپریل کو دنیا بھر میں اسٹریٹ چلڈرن کا دن منایاجاتا ہے پوری دنیا میں تقریباً 20کروڑ بچے گلی ،کوچوں اور فٹ پاتھوں پہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ صرف پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 30 ہزار بچے سڑکوں پہ زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔اگر اس حوالے سے پاکستان میں سروے کیا جائے تو ایسے ہزاروں بچے ملیں گے جو اپنی چھوٹی سی عمر میں مشقت اٹھاتے،سڑکوں پہ بھیک مانگتے اور گلی کوچوں میں گھوم پھر کر سموسے پکوڑے وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔

ان بچوں میں اکثر غربت یا یتیمی کی وجہ سے اپنے گھرکی کفالت کے ذمہ دار ہیں جبکہ بیشتر اپنے گھروں سے بھاگے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ جسم مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، کام کرنے والی جگہوں پر موجود افراد معصوم بچوں کو باآسانی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا لیتے ہیں جبکہ بدقسمتی سے ان مظلوم بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات کی تھانہ میں رپورٹ تک درج نہیں ہوتی ۔1995 ء میں پاکستان میں قانون پاس کیا گیا جس میں بچوں سے بھیک مانگنا جرم قرار دیا گیا لیکن اس پر آج تک عمل نہ ہو سکا۔

Child

Child

پاکستان میں جہاں حکومت کیلئے دیگر مسائل حل طلب ہیں ،وہیں بچوں کے حقوق کاتحفظ بھی بے حد ضروری ہے پاکستان میں معصوم بچوں سے جبری مشقت لینا،مزدوری کروانا اور بھیک منگوانا معمول بن چکا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کیلئے شرمندگی ،رسوائی کا سبب ہے ۔پاکستان میں تعلیمی شعبے کی کارکردگی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ،بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم کے بنیادی حق سے قاصر ہے ۔سکولز کی نسبت مدارس میں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ غریب والدین اپنے بچوں کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے۔

جبکہ مدارس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو کھانا،رہائش مفت مہیا کی جاتی ہے اسی طرح اگرسکولزکی بات کی جائے تو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم کا معیار سرکاری اداروں کی نسبت بہتر ہے ۔2016ء میں لڑکیوں کے سکولوں میں داخلے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ۔وفاق سالانہ بجٹ میں رقم کا ایک بڑا حصہ تعلیم کیلئے مختص تو کر دیتا ہے لیکن بہت ہی کم تعلیم پہ خرچ ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں حکومتی ادارے بچوں کی تعلیم کے بنیادی حق پہ توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر جیسی صورتحال میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ان حالات میں پاکستان تعلیمی میدان میں ترقی کرتا نظر نہیں آ رہا ۔بچوں کے حقوق کا تحفظ حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے اگر ہمارے ملک میں بچوں کی بنیادی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے اور مستحق والدین کی معاشی سرپرستی کی جائے تو بچے محنت مزدوری کی بجائے سکول میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونگے جس سے بچوں کے ان سنگین مسائل میں کمی واقع ہو گی۔

Abubakar Baloch

Abubakar Baloch

تحریر : ایم ابوبکر بلوچ